حملے کی صورت میں مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم دونوں ممالک کی فوج کو متحرک کردے گا، فائل فوٹو
 حملے کی صورت میں مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم دونوں ممالک کی فوج کو متحرک کردے گا، فائل فوٹو

مکہ اور مدینہ کی حفاظت 50ہزار پاکستانی فوجی کریں گے

امت رپورٹ:

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہونے والے دفاعی معاہدے کے خدوخال آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں۔ اس ’’باہمی دفاع کے اسٹرٹیجک معاہدے‘‘ سے نہ صرف پاکستان کو مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ کی حفاظت کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ بلکہ دونوں ممالک کو مل کر مشترکہ دشمنوں سے نمٹنے کا موقع بھی مل گیا ہے۔

معروف دفاعی تجزیہ نگار اور کئی کتابوں کے مصنف بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے اس معاہدے کے خدوخال واضح کرتے ہوئے بتایا ’’پاکستان، سعودی عرب میں پچاس ہزار فوجی تعینات کرے گا، اور یہ مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں کے دفاع کی مکمل ذمہ دار ہوگی۔ پانچ میزائل رجمنٹس کو تعینات کیا جائے گا، اور جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹم بھی قائم کیا جائے گا۔ پاکستان ایک ایئر کمیونیکیشن سسٹم قائم کرے گا۔ جس کے لیے اس نے پہلے ہی چین کے ساتھ چار سو چھیانوے ملین ڈالر کی لاگت سے بیس سیٹلائٹ خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ نئے ایئر بیس بھی بنائے جائیں گے۔

پاکستان سعودی عرب کی تیل پائپ لائن کے راستوں کی حفاظت میں کردار ادا کرے گا۔ پاک سعودیہ مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم ہو گا۔ ایئر کمیونیکیشن سسٹم کی مدد سے پورے خطے کی چوبیس گھنٹے نگرانی کی جائے گی۔ تیرہ ابابیل میزائل، بیلسٹک اور کروز میزائل متعدد بیرونی خطرات کے خلاف ایک وقت میں فوری جواب دینے کے لیے میزائل رجمنٹس کا حصہ بنیں گے۔ پاکستان ایئر فورس کے جے ایف سیونٹین تھنڈر اور جے ٹین سی طیارے سعودی عرب میں دفاعی نظام کا حصہ ہوں گے۔ کسی بھی اسٹرٹیجک پارٹنر پر حملے کی صورت میں دوسرے کی مدد لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ جوائنٹ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم دونوں ممالک کی افواج کو فوری طور پر متحرک کر دے گا‘‘۔

آصف ہارون کا مزید کہنا تھا ’’پاکستانی حکام کام شروع کرنے کے لیے چند روز میں سعودی عرب پہنچیں گے اور مکمل منصوبہ انشاء اللہ ایک سال کے ٹائم فریم میں مکمل ہو جائے گا۔ اس پیش رفت سے مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے معاملات پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ جو اسرائیل اور امریکی مداخلت سے تباہ ہو چکے ہیں۔ اس سے پاکستان کو پہلی بار مشرق وسطیٰ میں ایک ایسے وقت میں مضبوط قدم جمانے میں مدد ملے گی، جب مجرم اسرائیل کی حمایت کی وجہ سے امریکی اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے، اور غزہ میں اس کی نسل کشی کی جنگ کی وجہ سے اسرائیل کو لعنت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سے ان مظلوم فلسطینیوں کو سکون ملے گا، جنہیں عرب لیگ اور امت مسلمہ نے ترک کر دیا تھا‘‘۔

آصف ہارون کہتے ہیں کہ یہ عرب دنیا میں بھارت کے بڑھتے ہوئے سماجی و اقتصادی اثر و رسوخ، سیاسی مداخلت اور جاسوسی نیٹ ورک کو کم کرے گا۔ یہ قلیل مدتی نہیں بلکہ طویل مدتی منصوبہ ہے۔ پچاس ہزار فوجیوں، درجنوں پائلٹس اور سینکڑوں تکنیکی ہاتھ اور ہنر مند افرادی قوت کو جو معاشی فوائد حاصل ہوں گے، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سعودیوں کی طرف سے ان کی تنخواہ اور الاؤنسز پاکستان میں ان کے پے اسکیل کے مقابلے میں غیر معمولی ہوں گے۔ وہ عزت محسوس کریں گے اور مقدس مساجد حرمین شریفین کے دفاع کے لیے منتخب ہونے پر اللہ کا شکر ادا کریں گے۔ جنہوں نے حج اور عمرہ نہیں کیا، ان کی دل کی خواہش پوری ہو جائے گی۔

آصف ہارون بتاتے ہیں ’’مجھے یاد ہے کہ انیس سو بیاسی میں سعودی عرب بھیجی گئی دو آرمر انفنٹری بریگیڈز اور آرمر رجمنٹس اور افسران سعودی مسلح افواج کی تربیت کے لیے بھیجے گئے تھے۔ افسران کی ماہانہ تنخواہ اسی ہزار روپے تھی، جو موجودہ قت میں لاکھوں روپے بنتے ہیں۔ جب کہ وہ پاکستان میں چھ ہزار روپے تنخواہ حاصل کر رہے تھے۔ جب وہ گھر واپس آئے تو ان کا طرز زندگی بدل چکا تھا‘‘۔

ایک سوال پر دفاعی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ سابقہ شراکتوں کے برعکس، اس بار یہ ایک اسٹرٹیجک پارٹنرشپ ہے، جو سب کو اپنانے اور گھیرنے والی ہے۔ اس میں فوجی، ثقافتی، مذہبی، اقتصادی، سماجی، انٹیلی جنس اور سفارتی تعاون شامل ہوگا۔ سعودی عرب کو فوجی مدد فراہم کرنے کے بدلے میں سعودی عرب پاکستان کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے کے لیے اس کے تمام جاری اور مستقبل کے اقتصادی منصوبوں کے لیے مالی مدد فراہم کرے گا۔

دوسری جانب سعودی عرب کا افغان طالبان پر مضبوط اثر و رسوخ ہے۔ یہ کابل کی عبوری حکومت کو پاکستان میں سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو روکنے کے لیے قائل کرنے میں کردار ادا کرے گا۔ اسی طرح سعودی عرب کے بھارت کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات ہیں۔ حالیہ معاہدہ پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کو کم کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے درمیان تحفظات دور کرنے میں مدد کر سکتا ہے، جو چین کی طرف سے ترتیب دیے گئے دونوں مخالفوں کے درمیان میل جول کی وجہ سے آسان ہوگا۔

یہ معاہدہ تیل سے مالا مال عرب ریاستوں کی جانب سے ایس آئی ایف سی منصوبوں اور سی پیک کے خصوصی اقتصادی زونز میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے کھول دے گا۔ جبکہ گوادر میں پیٹرول کیمیکل آئل ریفائنری کے قیام کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔

آصف ہارون کے مطابق سب سے بڑی بات ہے کہ ایران نے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ اسی طرح ترکی اور چین نے اس شراکت داری کا خیر مقدم کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ روس بھی اس پیشرفت کا خیرمقدم کرے گا اور عرب لیگ سمیت گلوبل ساؤتھ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ دوسری جانب امریکہ کو بھی اس شراکت داری پر اعتراض نہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ، جو نیتن یاہو کی غنڈہ گردی سے تنگ آرہا ہے اور اس کے قابو سے باہر ہو چکا ہے، اسے اسرائیل کو چیک کرنے پر کوئی اعتراض نہیںے۔ شراکت داری کا دائرہ وسیع ہونے کا امکان ہے اور دیگر خلیجی ریاستیں بخوشی ناقابل اعتماد امریکی سیکیورٹی چھتری سے محفوظ اور قابل اعتماد پاک، سعودی سیکورٹی چھتری کی طرف منتقل ہو جائیں گی۔

اس کی طاقت اور کامیابی دیگر علاقائی مسلم ریاستوں کو نیٹو جیسا مشترکہ پلیٹ فارم بنانے پر راغب کرے گی۔ دفاعی معاہدہ منقسم مسلم دنیا کو متحد کرنے کے لیے ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کے لیے اخلاص اور مقصد کی دیانت پر مبنی مسلسل محنت کی ضرورت ہوگی۔

آخر میں آصف ہارون کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کے خلاف چھ اور سات مئی کے درمیان بھارت کو جو دندان شکن جواب دیا اور بعد ازاں اسرائیلی جارحیت پر ایران کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ یہ سب اس کے ثمرات ہیں۔ ان دو ایونٹس نے پاکستان کو جنوبی ایشیا کا سب سے نمایاں ملک بنا دیا ہے۔ ساتھ ہی جنوبی ایشیا میں بھارت کی چوہدراہٹ کا خاتمہ کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان، مشرق وسطیٰ میں بھی ایک اہم کھلاڑی کے طور پر ابھرا ہے۔