شازیہ شاہِین اور مُحمّد آصِف مِرزا کی ادبی جہات

تحرِیر : امجد بٹ ۔ مری

 

الحمد یُونِیورسِٹی شعبۂ اُردُو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جناب ڈاکٹر مُحمّد اِمتیاز کی نِگرانی اور صدر نشِین شعبۂ اُردُو جناب ڈاکٹر شیر علی کی سربراہی میں 2024ء میں لِکھا جانے والا وہ تحقِیقی مقالہ ہے جِسے ایم فِل سکالر محترمہ شازیہ شاہِین نے اپنا خُونِ جِگر دے کر "جناب مُحمّد آصِف مِرزا کی ادبی جہات کے بارے میں لِکھا ہے ، اور راقم نے یہ تعارُفی مضمُون اِسی مقالے کی روشنی میں مُدوّن کِیا ہے ۔

آصِف مِرزا بُنیادی طور پر درویش منش اور شہرت گُریز شخصِیّت کے مالِک ہیں لیکِن شازیہ شاہِین نے جِس عرق و حرف ریزی سے آصِف مِرزا کی شخصِیّت کے خاندانی ، ادبی ، لِسانی ، تحقِیقی اور سماجی پہلوؤں کو اپنے مقالے میں اُجاگر کِیا ہے اُس سے کم از کم ضِلع مری کی ادبی تارِیخ یکجا ہو گئی ہے ۔ آصِف مِرزا تِین دہائیوں سے ادبی دُنیا میں نہ صِرف ایک مُستند شاعر اور نقّاد کی حیثِیت سے جانے جاتے ہیں بلکہ "بیاض” ، "الحمرا” ، "ادبیاتِ” ، ” فنُون "، "نیرنگِ خیال” ، "سُفید چھڑی” ، "قِرطاس” اور”دستک مری” جیسے مُلک گِیر و معرُوف ادبی جرِیدوں میں اُن کا کلام خُوب پذِیرائی سمیٹتا رہا ہے ۔

قیامِ پاکِستان کے وقت سے جِن شعراء ، ادِیبوں اور صحافیوں نے مری کے گُلِستانِ ادب کو آباد رکھا ہُوا تھا ، آصِف مِرزا درحقِیقت اُن کا مجمُوعی پرتو ہیں ۔ فِکر و دانِش کی جو شمع رفتگانِ ادب نے جلائی تھی موصُوف نے اُس کی روشنی کو ماند نہِیں پڑنے دِیا بلکہ ماہنامہ "دستک مری” کے اِجراء سے نئے ادبی پروانوں کا اِضافہ اِس دبِستان کی موجُودگی کا مُنہ بولتا ثبُوت ہے ۔ معرُوف مُحقّق جناب پروفیسر کرم حیدری سے نوجوان ادِیب عُمر حفِیظ تک آٹھ دہائیوں پر مُشتمِل ادبی خزانہ کی جھلک آپ کو اِس مقالے میں دِکھائی دے گی ، جِسے جوہر شناس شازیہ شاہِین نے آصِف مِرزا پر تحقِیق کے ذریعے اپنے ذہن اور نوکِ قلم سے دریافت کِیا ہے ۔
سنجِیدگی ، وقار ، احترام ، جُستجُو ، معصُومیت اور تدرِیس و ادب سے عِشق کا اِمتزاج اگر کِسی ایک فرد میں دیکھنا ہو تو شازیہ شاہِین کا مُکمّل عکس آپ کو اِس مقالے میں نظر آ سکتا ہے ۔ راقم محترمہ کی دو برس کی تحقِیقی جُستجُو کا چشم دِید گواہ ہے ۔
اگرچہ آصِف مِرزا سے راقم کی وابستگی دو دہائیوں پر مُشتمِل ہے لیکِن یہ مقالہ پڑھنے کے بعد مُجھے یہ لِکھنے میں کوئی ہِچکچاہٹ نہِیں کہ آصِف مِرزا کی شخصِیّت ، تخلِیقات اور اسلُوبِ بیان سے مُتعلّق شازیہ شاہِین سے زیادہ آگاہی وطنِ عزِیز میں کِسی اور کو نہِیں ہے ۔
یُوں تو ضِلع مری میں ایم فِل اور پی ایچ ڈی عُلمائے ادب و سائنس کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ چُکی ہے لیکن یہاں کے ایسے افراد کی تعداد اب بھی اُنگلِیوں پر گِنی جا سکتی ہے جِن کی شخصِیّت اور معنوی اولاد پر مُستند جامعات نے تحقِیقی مقالہ جات لِکھوائے ہوں ۔ اہلِ مری کو اِس بات پر فخر ہے کہ مُحمّد آصِف مِرزا کا اُن میں نُمایاں مقام ہے ۔ اُن کی شاعری کے دُوسرے مجمُوعے "صدا پانی کی”پر دُوسرا مقالہ کوہسار یُونِیورسِٹی سے بی ایس سکالر مُحمّد اکرم نے مُرتّب کر کے کامیابی حاصِل کی ہے ۔
شازیہ شاہِین (سِدوزئی) کے آباء و اجداد افغانِستان سے ہِجرت کر کے پہلے آزاد کشمِیر (پلندری) اور بعد ازاں راولپنڈی میں آباد ہُوئے ۔ جہاں اُنہوں نے اِبتداء سے ڈِگری کالج تک تعلِیم حاصِل کی ۔ مایُوس کُن علالت کو شِکست دے کر بی ایڈ و ایم ایڈ تک کا تعلِیمی سفر نُمایاں کامیابی سے طے کِیا ۔ نِیُو مری کی ایک سرکاری درسگاہ میں فرائضِ منصبی ادا کرنے کے دوران ایم فِل میں درجہ اوّل کامیابی حاصِل کی ۔ اِن کے خیال میں ادبی تربِیّت کے بغیر نہ صِرف مُعاشرہ اپنی خُوبصورتِیوں سے محرُوم ہو جاتا ہے بلکہ کدُورتوں کو نفرتوں میں ڈھلتے دیر نہِیں لگتی ۔
مُحمّد آصِف مِرزا کے والدِ محترم مِرزا مُحمّد شرِیف بیگ 1950ء میں تقسِیمِ ہِند کے بعد معرُوف بھارتی برفانی عِلاقے چمبہ(ہماچل پردیش) سے مری آ کر آباد ہُوئے ۔ یہاں آصِف مِرزا کی پیدائش 21 مئی 1950ء کو ہُوئی ۔ ایم سی پرائمری سکُول ( آج کا "علامہ اِقبال ماڈل ، میُونسپل پرائمری بوائز سکُول”) اور گورنمنٹ بوائز ماڈل ہائی سکُول سے اِبتدائی تعلِیم حاصِل کی ۔ والد کی طرف سے مُطالعہ کی عادت مُحمّد آصِف مِرزا کی اوّلِین وراثت بنی ، جِس کا عملی ثبُوت اِن کی اہلیہ محترمہ اور اہلِ خانہ کی معاونت سے قائم رہنے والی ہزاروں کُتب پر مُشتمِل حوالہ جاتی لائبریری ہے ۔ جبکہ سیاسی اثاثے میں اِن کے چھوٹے بھائی مِرزا سُہیل بیگ نے اِضافہ کِیا جو اپنے والد کی طرح اِنتخابات جِیت کر تحصِیل مری کے نائب ناظم تک رہے ۔ مُحمّد آصِف مِرزا کے چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہیں ۔ موصُوف 1974ء کے بعد دس برس سے زیادہ عرصہ عرب ریاست عمّان میں کِتابوں کے کاروبار سے مُنسلِک رہے جو کہ اُن کا شوق بھی تھا ۔ گویا اُردُو ادب کے قارئِین اور لِکھاریوں کے لئے عمّان کے ریگِستانوں میں بھی ادبی تَشنگی مِٹانے کا اہتمام کِیا گیا تھا ۔ یُوں مُختلِف مُمالک کے معرُوف ادِیبوں سے مُلاقاتوں اور الگ الگ مُعاشروں کی تہذِیب و روایات اور مذاہب کو سمجھنے سے وُسعتِ نظری کی دولت نصِیب ہُوئی ۔ عمّان میں رہتے ہُوئے اِس عِلمی و ادبی ماحول سے اِن کے چھوٹے بھائی شاہد مِرزا اور یارِ غار جناب علاؤالدِین کو بھی اِستفادہ کا موقع مِلا ۔ وطن کی یاد واپس لائی تو شعر و ادب سے وابستگی کے ساتھ ساتھ "انجمنِ فلاحِ مُعاشرہ” نامی تنظِیم قائم کر کے عوامی فلاح کا بِیڑہ اُٹھایا اور دو دہائیوں سے یہ سِلسِلہ جاری ہے ۔ عِلم و ادب سے رُوحانی وابستگی اِس فلاحی تنظِیم کے لئے ایک جرِیدے(ماہنامہ دستک ۔ مری) کی اشاعت کا سبب بھی بنی ، جِس نے ایک بزم بلکہ دبِستان کا رُوپ دھار لِیا ۔ وطن عزِیز خصُوصاً ضِلع مری کے لِکھاریوں کو اپنی تخلِیقی صلاحیتیں نِکھارنے کے لئے ایک بے مِثال میدانِ عمل مُہیّا کِیا ۔ "دستک مری” کے باون شُماروں کی طباعت کے ساتھ ساتھ اب تک موصُوف کی چھ عدد کُتب : 1 ۔ سِتارہ ہے خاک پر(شعری مجمُوعہ ۔ 2015ء) 2 ۔ صدا پانی کی(شعری مجمُوعہ ۔ مارچ 2024ء) 3 ۔ کھُلا ہے بابِ سُخن(تنقِیدی مضامِین ۔ مارچ 2024ء) 4 ۔ مری کے رنگ ہزار(تالِیف ۔ مارچ 2024ء) 5 ۔ منظر پاکِستان کے (تالِیف ۔ مارچ 2024ء) 6 ۔ دو پاکِستان ("دستک مری” کے مُنتخِب اِداریے ۔ اکتُوبر 2025ء) منظرِ عام پر قُبُولیت حاصِل کر چُکی ہیں ۔
آصِف مِرزا نے اپنی مورُوثی عادت یعنی مُطالعے کو اِس خُوبصُورتی سے نِکھارا کہ اُن کے گھر کے اکثر افراد اِس سے مُستفِید ہُوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ اُن کے پانچوں بچّوں اور بھائی عامر مِرزا کو نہ صِرف مُطالعے کا شوق ہے بلکہ وہ "دستک مری” کے لِکھاریوں میں بھی شامِل ہیں ۔ موصُوف کے وسِیع مُطالعے اور وسِیع النظری کا یہ عالم ہے کہ اِن کی محفل میں بیٹھنے والے ہر شخص کو فرداً فرداً شدِید مذہبی ، سیاسی اور ادبی و عِلمی اِختلافِ رائے کے باوصف خُوب پذِیرائی مِلتی ہے ۔ اپنی عِلمی دھاک بِٹھانے کے بجائے عاجزی ، اِنہماک اور توجّہ سے سب کی بات سُنتے ہیں ۔ کِسی کی گُفتگُو اور نظریات میں شخصی کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہُوئے خُوبیوں کا ذِکر کر کے اُس کے اعتماد کو بڑھاتے ہیں ، اِس طرح میرے جیسے کم عِلم اور کم عقل افراد کو اپنی اِصلاح کا موقع مِل جاتا ہے اور ندامت بھی نہِیں ہوتی ۔ کئی برس کی رفاقت سے یہ بات سمجھ آنے لگی ہے کہ جو باتیں ہم کئی دہائیوں میں اپنے والدین ، عُلماء ، اساتذہ اور مُعاشرے سے نہ سِیکھ پائے وہ ایک شخص نے سِکھا دِیں گویا اکیلا فرد اِداروں کا کام کرتا رہا ۔ مُشتاق یُوسفی نے شاید اِسی مُناسبت سے کہا تھا کہ "میری بیٹی مُجھ سے تِیس برس بڑی ہے” یعنی ایک عالم کی محفل اور اُس کی سابقہ عُلُوم و تجربات سے آگاہی کے باعث آپ کو اپنی عُمر سے کئی گُنا زیادہ پُختہ کار اور تجربہ کار بنا دیتی ہے ، بشرطیکہ آپ دیانتداری اور محنت سے کُچھ سِیکھنا چاہتے ہوں ۔
اگرچہ معیاری اور صُوفیانہ پہاڑی شاعری میں تو آصِف مِرزا کا نام بانیان میں شُمار ہوتا ہے لیکن اُن کی اُردُو نظم و نثر بھی گہرے ادبی مُطالعہ اور اساتذہ کے تحرِیری رنگ و آہنگ سے معمُور نظر آتی ہے ۔ ایسی معیاری تحرِیروں کا مُطالعہ ہی ادبِ عالیہ کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے ۔
جناب آصِف مِرزا کی شخصِیّت اور اُن کے طرزِ تحرِیر پر جِن نامور شخصیات نے اِظہارِ خیال کِیا ہے اُن میں لطِیف کاشمِیری ، امجد اِسلام امجد ، ڈاکٹر بابر اعوان ، سلِیم شوالوی ، جمِیل یُوسف ، پروفیسر انور جمِیل ، شاہد بُخاری (ایڈووکیٹ) ، سعُود عُثمانی ، علاؤالدِین ، تصوّر اِقبال ، اِبنِ کلِیم احسن نِظامی ، ڈاکٹر حسنین ساحر ، سُہیل بیگ ، ڈاکٹر شکِیل کاسیروی ، وِجدان آصِف ، عُمر حفِیظ اور شازیہ شاہِین کے نام قابلِ ذِکر ہیں ۔ اِس مقالے کی اِنفرادیت یہ بھی ہے کہ مُصنّفہ نے نہ صِرف شعری اِصطلاحات کے ساتھ ساتھ آصِف مِرزا کی غزل ، نظم اور نعت گوئی کا احاطہ کِیا ہے بلکہ اِن اصنافِ سُخن کی تارِیخ سے بھی مُتعارف کروایا ہے ۔ یہاں آپ کو اُردُو کے معرُوف و عالمگِیر نعت ، غزل اور نظم گو مشاہِیر کا نظم پاروں کے بارے میں اِظہارِ خیال بھی مِلے گا ۔
آصِف مِرزا کے دو نعتیہ اشعار مُلاحِظہ ہوں :

کثرتِ کاوشِ دُنیا کے ستائے ہُوئے ہیں
میرے آقا تری دہلِیز پہ آئے ہُوئے ہیں

مُختلِف غزلوں کے نمُونے کے دو اشعار آپ کی نذر :

سواری درد کی اُتری ہے دِل کی خِلوتوں میں
جہاں کی چِیز تھی اُس کو وہاں رکھا گیا ہے

گِریۂ شب میں مِلی جِن کو مِلی دولتِ درد
روشنی پردۂ ظُلمات میں رکھی گئی ہے

شاعری اور اِنشاپردازی میں الگ الگ اندازِ بیان ہی لِکھاری کی پہچان بنتے ہیں ۔ مُنفرِد فِکری اُڑان کے ساتھ ، نئے اُردُو مُرکّبات کو اِس طرح تصوّف اور تلمِیحاتی عِلم و آگہی سے مُزیّن کر کے اپنے اشعار میں سجاتے ہیں کہ یہ مُرکّبات نئی اِصطلاحات کا رُوپ دھار لیتے ہیں ۔ اُن کی نظم "ماں” کے ایک شعر سے لُطف اندوز ہوں :

خامۂ حق سے لِکھی اِک مُنفرِد تحرِیر تُو
گھر کے البم میں سجی سب سے حسِین تصوِیر تُو

کِتابوں کے عِشق سے معمُور نظم کا ایک شعر عُشّاقِ کُتب کے لئے :

مرے حجلۂ جان کو کیسا مُعطّر کِیے دے رہی ہے کِتابوں کی خُوشبُو
کِتابوں میں ہے بند ساری زمِینوں کی سارے زمانے کی خُوشبُو

مری کا حُسن تار تار ہوتے نہ دیکھ سکے تو اُن کی نظم "شہر آشوب ۔ مری” نے اُن کے قلب و ذہن پر یُوں دستک دی :

یہاں اب اُگ رہے ہیں سنگ و آہن
شجر سے ٹُوٹتا جاتا ہے بندھن
مرے جنگل اُجاڑے جا رہے ہیں
مرے موسم بِگاڑے جا رہے ہیں
وہ میرے قدر داں جانے کہاں ہیں؟
پُرانے مہرباں جانے کہاں ہیں؟
بسایا تھا مُجھے غیروں نے آ کر
اُجاڑا ہے مگر اپنوں نے کھا کر
یہاں بادل بچے ہیں یا ہوائیں
جو بس میں ہو اُنہیں بھی بیچ کھائیں

قادرالکلام شعراء کوقُدرت کی طرف سے یہ کمال حاصِل رہا ہے کہ اُن کے خوابوں ، خیالوں اور محسُوسات کے اِستقبال کے لئے "بابِ سُخن” ہمیشہ کھُلا رہتا ہے ۔ ملکۂ کوہسار مری کی نادرۂ رُوزگار شخصِیّت حضرت علامہ مُضطَر عباسی سے ایک بھی نشِست نہ ہُوئی لیکِن مُحمّد آصِف مِرزا نے احباب سے علامہ موصُوف کا تذکرہ سُن کر اُن کا ایسا مرثِیہ لِکھا جو علامہ صاحب کی شخصِیّت پر اُن سے قرِیب رہنے والے احباب کی لِکھی گئی تمام نثر پر فوقیت رکھتا ہے ۔ 59 اشعار پر مُشتمِل مرثِیے کے دس اشعار آپ کی نذر :

عِلم کا جب بھی تذکرہ ہو گا
ذکر مُضطَر کا برملا ہو گا
سلف کی یادگار تھا مُضطَر
عِلم کا اعتبار تھا مُضطَر
گھر بھی اُس کا کِتاب گھر تھا ایک
بزمِ یاراں کا مُستقر تھا ایک
دولتِ عِلم کا امِین تھا وہ
بینِ وہم و گُماں یقین تھا وہ
کیا کہُوں اِک خیالِ جاری تھا
اِک مُقدّس سی بے قراری تھا
جا بجا وہ دِئیے جلاتا رہا
عِلم کی آگ سی لگاتا رہا
تھی وہ اُردُو کہ اسپرنٹو تھی
سبقتِ عِلم اُس کا موٹو تھی
بعِوض خِدمتِ کلامِ مجِید
حق نے اپنی رضا کی دی ہی نوِید
مانگتے ہیں خُدا سے ہم یہ دُعا
رُوحِ مُضطر کو ہو سُکُون عطا
بطُفیلِ مُحمّدِ عربی
گورِ مُضطر سدا رہے ٹھنڈی

محترمہ شازیہ شاہِین نے ہمیں اپنی مِٹّی کی تاثِیر سے معمُور ایک فِطری شاعر کے ساتھ ساتھ ایک ایسے نقّاد سے بھی مُتعارف کروایا ہے جو دُوسرے ادِیبوں اور شاعروں کے ذہنوں میں سما کر اُن کے محسُوسات اور تجربات کو سمجھنے کا فن جانتے ہیں ۔ اُن کی ہر تحرِیر ذوقِ مُطالعہ کے حاملِین پر ثابت کرتی ہے کہ وہ گہرے مُطالعے اور تحقِیق کے بغیر کُچھ نہِیں لِکھتے ۔ اِس طرح قدِیم و جدِید ادب کی قوسِ قزح سے مُرصّع اُن کی تحرِیریں نہ صِرف آصِف مِرزا کے وسِیع النظر ، غیر جانِبدار اور وسِیع المشرب ہونے کی دلِیل ہیں بلکہ ادبی تنقِید کا بانکپن دیکھنے کے لئے آج کے نقادوں کو اُن کی کُتب "دو پاکِستان” اور "کھُلا ہے بابِ سُخن” کا مُطالعہ کرنا پڑے گا ۔ جِس طرح ایک مُعالج جِسمانی عوارض کی نِشاندہی اور عِلاج کرتا ہے بِالکُل اِسی طرح ایک نقّاد بھی ادبی معائب و محاسِن سامنے لا کر اِصلاح و بہتری کے لئے راہنُمائی فراہم کرتا ہے ۔ آصِف مِرزا کا یہی کِردار بحیثیت مُدِیرِ اعلیٰ "ماہنامہ دستک ۔ مری” میں بھی رہا ہے ۔ شازیہ شاہِین نے جہاں”دستک مری” کے اُردُو ادب میں کِردار اور دو دہائیوں پر مُشتمِل تارِیخ پر سیر حاصِل بحث کی ہے وہیں اُردُو ادب کے بِیس نُمائندہ جرائد کے محاسِن اور اُن کی دو صدیوں پر مُشتمِل تارِیخ کو دو صفحات میں سمو کر رکھ دِیا ہے ۔
ہم سب اہلِ مری محترمہ شازیہ کے شُکر گُزار ہیں کہ اُنہوں نے ہمیں مری کی بھُولی ہُوئی ادبی تارِیخ سے جوڑ دِیا ۔