ڈھاکہ کے فکری محاذ پر نئی کشمکش:اقبال کاورثہ اور قومی شناخت کی بازیافت

تحریر:۔ڈاکٹر ظفر اقبال

ڈھاکہ یونیورسٹی کے فکری اور سیاسی منظرنامے پر حالیہ دنوں میں ایک ایسا مطالبہ ابھر کر سامنے آیا ہے جو محض ایک تعلیمی ادارے کی توسیع نہیں، بلکہ قومی تاریخ اور شناخت کی تعبیر پر جاری ایک گہری نظریاتی کشمکش کی نشاندہی کرتا ہے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے نام پر ایک نئے رہائشی ہال کے قیام کا مطالبہ، جو ‘ اسٹوڈنٹ کونسل’ اور دیگر متعلقہ تنظیموں کی جانب سے ۲۱ اپریل ۲۰۲۵ء کو علامہ اقبال کی ۸۷ویں برسی کے موقع پر اٹھایا گیا، بنگلہ دیش کی بنیاد میں موجود اسلامی/مسلم قومیت کے کردار کی تاریخی بازیابی کی ایک بھرپور کوشش ہے۔
سیکولر بیانیے کو چیلنج اور تسلسل کا دعویٰ
بنگلہ دیش کی سرکاری تاریخ عام طور پر ۱۹۷۱ء کی آزادی کو بنگالی لسانی اور سیکولر قومیت کا ثمر قرار دیتی ہے، جبکہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کا قیام ایک عارضی مرحلہ تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم، اقبال ہال کا مطالبہ کرنے والے دانشوروں اور مقررین نے ایک متبادل اور چیلنجنگ بیانیہ پیش کیا ہے۔ وہ برملا یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ "آج کا بنگلہ دیش علامہ اقبال کے وژن کا تسلسل ہے”۔ نیشنل ریولوشنری کونسل کے سینئر جوائنٹ کنوینر محمد شمس الدین نے دلیل دی کہ اقبال کے فلسفے اور نظریات نے ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قیام کو تحریک دی، جس کے تسلسل میں بنگلہ دیش وجود میں آیا۔
ڈاکٹر عبدالواحد، جو علامہ اقبال سوسائٹی کے سیکرٹری ہیں، اس موقف کو مزید تقویت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اقبال کی وضع کردہ مسلم قومیت کے تصور نے ہی بنگلہ دیش کی آزادی کو ممکن بنایا۔ ان کا استدلال ہے کہ اگر یہ تصور بنیاد نہ بنتا تو مشرقی بنگال برطانوی نوآبادیاتی دور کے بعد بھارت کا ایک صوبہ بن جاتا اور وہاں کے مسلمانان "مظلومیت اور جبر” کا شکار ہوتے۔ یہ بیانیہ قومی تاریخ کی بنیاد کو لسانی قومیت سے ہٹا کر ایک بار پھر اسلامی تشخص کے خانے میں منتقل کرنے کی مضبوط کوشش ہے، جس سے ڈھاکہ میں مذہبی اور قدامت پسند گروہوں کی بڑھتی ہوئی سیاسی و فکری طاقت اور جرات کا اشارہ ملتا ہے۔
تاریخی ورثے کی بازیابی: نظریاتی نفی کو الٹانا
اس مطالبے کا علامتی پہلو انتہائی اہم ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کا پانچواں رہائشی ہال دراصل ۱۹۵۷ء میں "اقبال ہال” کے نام سے ہی منسوب کیا گیا تھا۔ لیکن ۱۹۶۹ء کی عوامی تحریک اور ایوب خان کے زوال کے بعد، بنگالی قوم پرست قوتوں کی جانب سے اسے شہید طالب علم سارجنٹ ظہور الحق ہال کے نام سے بدل دیا گیا۔ یہ نام کی تبدیلی درحقیقت پاکستانی ریاستی ڈھانچے اور اس کے نظریاتی ستونوں (بشمول اقبال) کی ایک علامتی نفی تھی۔
اب، دوبارہ ‘اقبال ہال’ کا مطالبہ کرنا دراصل اس نظریاتی نفی کو الٹ کرنے اور ۱۹۴۷ء کی بنیاد—مسلم قومیت—کو بنگلہ دیش کے قیام کا ایک لازمی اور مثبت پہلا قدم تسلیم کروانے کی جدوجہد ہے۔ مقررین نے الزام لگایا ہے کہ ملک کی قومی زندگی سے "مسلم قومیت” کے ورثے کو مٹانے کی سازشیں کی گئی ہیں۔
علامہ اقبال سوسائٹی کے سیکرٹری ڈاکٹر عبدالواحد نے اس بات کا ذکر کیا کہ عوامی لیگ کے دور میں "اقبال پر گفتگو کو دبایا گیا تھا” اور "فلسفیانہ گفتگو ممنوع تھی،” لیکن اب ایک "آزاد ماحول میں، نوجوان نسل علامہ اقبال کے بارے میں جان رہی ہے”۔ یہ تبدیلی بنگلہ دیش میں تاریخی بیانیوں کے متعلق ایک نئی بحث کا نقطۂ آغاز ہے۔ اسی تسلسل میں، علامہ اقبال کی برسی پر ڈھاکہ یونیورسٹی میں "علامہ اقبال کا ریاستی فکر” کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد بھی کیا گیا۔
گزرے پچاس برس کا فلسفہ: اقبال کے کلام کی بازگشت
برصغیر کی مسلم تاریخ کے وسیع تر سیاق و سباق میں، یہ مطالبہ صرف عمارتوں کے نام تک محدود نہیں، بلکہ اجتماعی حافظے اور قومی شناخت کے جوہری سوال پر ایک گہرا فکری مکالمہ ہے۔ علامہ اقبال کا فلسفۂ خودی (Selfhood) ہمیشہ مسلمانوں کو جمود توڑنے اور اپنے مقدر کی تعمیر کا درس دیتا رہا ہے۔
یہ فکری تحریک، جو موجودہ تاریخی بیانیے کو قبول کرنے سے انکاری ہے، دراصل اقبال کے اس قلبی اور انقلابی پیغام کی عملی شکل ہے جو وہ جاوید نامہ میں دیتے ہیں، جہاں وہ ہر اس نظام یا ماحول کو توڑ دینے کا درس دیتے ہیں جو خودی کی راہ میں رکاوٹ ہو:
در شکن آں را کہ ناید سازگار
از ضمیرِ خود دگر عالم بیار!
ترجمہ: اس کو توڑ دے جو تُجھے سازگار نہیں آتا، اپنے ضمیر سے دوسرا جہان لے آ۔
یہی وہ جذبۂ خود مختاری اور نظریاتی جرات ہے جو آج کی نوجوان نسل کو اپنے تاریخی ورثے کی بازیابی کی تحریک دے رہا ہے، کیونکہ وہ اس بیانیے کو توڑنا چاہتے ہیں جو ان کی نظر میں مسلم قومیت کے ورثے کو نظرانداز کر کے ان کے لیے سازگار نہیں رہا ہے۔ اقبال کا یہ پیغام "نئی تبدیلی” اور "نئے رجحانات کی عکاسی” کی بنیاد بنتا ہے جو ڈھاکہ میں اس نظریاتی کشمکش کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
نتیجہ: فکری میدان میں بڑی جنگ کا آغاز
ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقبال ہال کی تجدید یا نئے ہال کے مطالبے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ بنگلہ دیش میں فکری میدان میں ایک بڑی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ کشمکش اس بات کو طے کرے گی کہ قومی بیانیے کی تشکیل نو میں بنگالی لسانیت زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے یا اسلامی/مسلم قومیت۔ یہ بحث اس بات کی عکاس ہے کہ کس طرح قومیں اپنے ماضی کے ساتھ نئے سرے سے رشتہ استوار کرتی ہیں اور مختلف تاریخی دھاروں کو یکجا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ مظہر بنگلہ دیش کی ثقافتی اور فکری زندگی میں آنے والے برسوں میں اہم تبدیلیوں کی نشاندہی کر سکتا ہے۔

 

مضمون نگار ڈاکٹر ظفر اقبال ہیلتھ کیئر مینجمنٹ، کوالٹی اور مریض کی حفاظت کی تربیت سے وابستہ ہیں اور اقدار کی بنیاد پر پریکٹس کے فروغ اور اس کی تربیت کے لیے کوشاں ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کے علاوہ حالات حاضرہ، بین الاقوامی تعلقات، ماحولیات، اقبالیات، سیاسی، ادبی اور قومی امور بھی ان کی دلچسپی اور آرا دہی کے موضوعات ہیں۔ ان سے لنکڈ ان پر رابطہ کیا جا سکتا

ہے۔https://www.linkedin.com/in/dr-zafar-iqbal-1b02b48/