جعل سازی کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم وزیر اعلیٰ نے دیا تھا، فائل فوٹو

کراچی میں ہزاروں ایکڑ اراضی کی بندر بانٹ

نمائندہ امت :
کراچی میں طویل عرصے سے جعل سازی کے ذریعے ہزاروں ایکڑ سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم 1990ء کی دھائی کے بعد یہ سلسلہ مزید بڑھ گیا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ محکمہ لینڈ یوٹیلائزیشن، بورڈ آف ریونیو، متعلقہ ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، پٹواریوں کی ملی بھگت کے بغیر سرکاری زمینوں کی بندربانٹ ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب خود ایک سرکاری رپورٹ میں سامنے آیا ہے مذکورہ رپورٹ وزیراعلیٰ سندھ کو ارسال کی گئی ہے جس میں فی الحال ایک درجن سے زائد زمینوں کے جعلی الاٹمنٹ کے کیسز کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تقریباً ایک ہزار ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ منسوخ کی گئی ہے اور وہ مقدمات اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سندھ کے زیر تفتیش ہے۔

تفصیلات کے مطابق کراچی میں جعل سازی کے ذریعے سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ کے واقعات بڑھنے کا وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سختی سے نوٹس لیتے ہوئے بورڈ آف ریونیو سندھ کے حکام کو احکامات جاری کیے تھے کہ جعلی الاٹمنٹ کے متعلق بورڈ آف ریونیو سندھ کے حکام نے کیا کارروائی کی ہے اور اس سلسلے کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں اور اس جعل سازی میں ملوث افسران و دیگر افراد کے متعلق بھی آگاہ کیا جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں بورڈ آف ریونیو سندھ کے حکام نے وزیراعلیٰ سندھ کو ایک رپورٹ ارسال کی ہے جس میں ایک درجن سے زائد جعلی الاٹمنٹ کے کیسز کے متعلق انہیں آگاہ کیا گیا ہے اور رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ جعل سازی میں ملوث متعلقہ افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

وزیراعلیٰ سندھ کو جو رپورٹ ارسال کی گئی ہے اس میں ضلع کیماڑی کے دیہہ لال بکھر میں جعلی انٹریز کر کے 550 ایکڑ اراضی عبدالغنی دادا بھائی کے نام پر چڑھا دی گئی۔ جس کی چھان بین کے بعد مذکورہ زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کر کے اینٹی کرپشن حکام کو اس کی تحقیقات کرنے کے لیے لیٹر ارسال کیا گیا تھا۔ اینٹی کرپشن حکام نے مقدمہ درج کر کے انکوائری شروع کر دی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گھپلے میں اس وقت ماڑی پور کے مختیارکار عبدالحق چائوڑو، اسسٹنٹ کمشنر غلام معین الدین برڑو، پٹواری غلام مصطفی ملوث پائے گئے ہیں۔ جنہوں نے جعل سازی کے ذریعے عبدالغنی دادا بھائی اور عبداللہ دادا بھائی کو غیرقانونی طور پر فائدہ پہنچایا۔ انکوائری میں ان دونوں کا نام بھی شامل ہے۔ ضلع ملیر کی دیہہ پایل میں بھی اسی طرح جعل سازی کے ذریعے 200 ایکڑ اراضی فاطمہ زوجہ یار محمد شاہ کے نام پر 99 سالہ لیز ظاہر کی گئی۔ بعد میں جعل سازی کے ذریعے مذکورہ زمین کو ریگولرائز کیا گیا اس زمین کی بھی الاٹمنٹ منسوخ کر کے متعلقہ اینٹی کرپشن حکام کو انکوائری کرنے کے لیے لیٹر ارسال کیا گیا ہے۔

مذکورہ جعل سازی میں اس وقت کے مختیارکار قاضی رحمن، اسسٹنٹ کمشنر زین العابدین چنہ کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں الاٹمنٹ کے آرڈر پر اس وقت کے ممبر محکمہ لینڈ یوٹیلائزیشن قمر رضا بلوچ کے دستخط ظاہر کیے گئے تھے۔ تاہم مذکورہ افسر نے اپنا جو بیان ریکارڈ کرایا ہے اس کے مطابق ان کے جعلی دستخط کیے گئے ہیں۔ مذکورہ معاملے کی بھی انکوائری چل رہی ہے۔ فراڈ کے ذریعے ہتھیا لی گئی دیگر سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ منسوخ کی گئی ہے۔ ان میں ضلع ملیر کی دیہہ بازار کی 15 ایکڑ اراضی بھی شامل ہے۔ جس میں اس وقت کے اسسٹنٹ مختیارکار محسن شاہ کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔ جس کے خلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ بھی درج ہو چکا ہے۔ ضلع ملیر کی تحصیل شاہ مرید کی دیہہ الہ پہائی ایک بلڈر کو نوازنے کے لیے 25 ایکڑ اراضی اسی طریقے سے ہتھیا لی گئی۔ جس میں حال ہی میں ریٹائر ہونے والے مختیارکار یوسف علی عباسی، محمد حسن، عدنان ناصر کے ساتھ ایم ایس ایچ آئی بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کو بھی زیرتفتیش لیا گیا ہے۔

اس طرح منگھو پیر کا علاقہ بھی مذکورہ مافیا کے نشانے پر رہا ہے جہاں دیہہ بندمراد میں 48 ایکڑ اراضی محمد انور ولد مراد بخش کے نام پر چڑھا دی گئی۔ مذکورہ الاٹمنٹ میں اس وقت کے ممبر محکمہ لینڈ یوٹیلائزیشن (ایل یو) کو بھی ملوث قرار دیا گیا ہے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ زمینوں کی جعلی الاٹمنٹ میں صرف بورڈ آف ریونیو کے افسران و عملہ شامل نہیں بلکہ دیگر ادارے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے ہیں۔

ضلع وسطی کی دیہہ بیرانوں کی 2 ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ کو بھی جعلی قرار دے کر منسوخ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں مذکورہ فراڈ کے متعلق تحریر کیا گیا ہے کہ دو گز انٹری کے بعد سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی کی جانب سے اخبار میں ایک اشتہار بھی شائع کرایا گیا کہ کسی کو بھی اعتراض ہو تو وہ رجوع کر سکے۔ مذکورہ زمین کی الاٹمنٹ کے فراڈ میں جنہیں ملوث قرار دیا گیا ہے اس میں سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی کے ڈائریکٹر حاجی احمد، ڈپٹی ڈائریکٹر ایاز احمد، اسسٹنٹ ڈائریکٹر مرتضیٰ، ڈسٹرکٹ منیجر پیپلز سروس سینٹر نوید علی شیخ، ڈیٹا پروسیسنگ آفیسر فقیر احمد کاندھڑو کے نام شامل ہیں۔ جنہوں نے محمد یوسف خان کو نوازنے کے لیے یہ جعل سازی کی۔

اس طرح ضلع ملیر کی دیہہ ٹوڑ کی 24 ایکڑ اراضی کے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مراد میمن کے اسسٹنٹ کمشنر نے سروے نمبر 296، 297، 298، 299 اور 300 کی انٹریاں دکھا کر بعدازاں کمی و بیشی ظاہر کر کے فارم 62 کی بنیاد پر کام دکھایا۔ جس کے بعد ایم ڈی اے کے ڈائریکٹر ٹائون پلاننگ کے منظور کردہ لے آئوٹ کے تحت زمین کی میوٹیشن بھی کی گئی۔

اس کے بعد مذکورہ تحصیل کے ایک اور اسسٹنٹ کمشنر نے اس کے متعلق بورڈ آف ریونیو کے حکام کو لیٹر ارسال کیا جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ سروے سپرنٹنڈنٹ مذکورہ زمین کے فارم 62 اور سروے نمبرز کے دفتر سے جاری نہیں ہوئے۔ جس کے بعد مذکورہ الاٹمنٹ کو بھی منسوخ کر کے 10 اپریل 2023ء کو اینٹی کرپشن کو انکوائری کرنے کی سفارش کی گئی تھی کہ یہ بھی انکشاف ہوا کہ مذکورہ 24 ایکڑ اراضی کی جعل سازی میں محکمہ ایل یو کے سیکشن افسر عبدالقادر پتافی، اسسٹنٹ کمشنر اعجاز ہالیپوٹو، پٹواری امتیاز کلوڑ، احسان الٰہی، ایم بی اے اور متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر دفتر کے متعلقہ مختیارکار اور سب رجسٹرار کا عملہ بھی ملوث ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس انکوائری میں ڈولا شاہ، ہیون بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کے امان اللہ ابراہیم اور عدیل اعظم کو بھی زیرتفتیش لیا گیا ہے۔ اینٹی کرپشن حکام انکوائری کررہے ہیں۔ دیہہ کھوکھرو نے بھی محمد عبداللہ ولد اللہ ڈنو کو جعل سازی کے ذریعے 6 ایکڑ اراضی سے نوازا گیا تھا۔ جس میں محکمہ ایل یو کے افسر اور مراد میمن تحصیل کے مختیارکار ملوث قرار دیے گئے ہیں۔ دیگر جن زمینوں کی جعل سازی کی بنیاد پر الاٹمنٹ منسوخ کی گئی ہے اس میں تحصیل گڈاپ کی دیہہ کڈیجی کی 100 ایکڑ اراضی شامل ہے جس میں بھی ایک اسسٹنٹ کمشنر مختیارکار جلیل بروہی، پٹواری سردار شر کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔

ضلع شرقی کی دیہہ دوزان میں عدنان عزیز ولد عبدالعزیز کو 24 ایکڑ اراضی سے نوازا گیا تھا۔ مذکورہ فراڈ میں ممبر ایل یو غلام عباس سومرو، پٹواری الہ بچایو کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔ تحصیل گلشن اقبال کی دیہہ صفورا میں بھی حاجی رفیق احمد کو جعل سازی کے ذریعے الاٹ کی گئی 14 ایکڑ اراضی اور مذکورہ دیہہ کی ایک اور 14 ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ منسوخ کی گئی ہے۔ جس میں اسسٹنٹ کمشنر محمد علی خواجہ، ستار ہکوڑو، عبدالرحیم شیخ، مختیارکار عمران جسکانی، ذوالفقار منگی، سلمان فارسی، پٹواری ظفر خان خاصخیلی اور گل حسن میرانی کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔