فائل فوٹو
فائل فوٹو

رخصتی کے بغیر نان و نفقہ دینے کا فیصلہ غیر شرعی قرار

نواز طاہر:
تمام مسالک و مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام و مذہبی رہنمائوں پر مشتمل مشترکہ عالمی پلیٹ فارم ’ملی مجلس شرعی‘ نے نکاح کے بعد رخصتی کے بغیر ہی خاتون کو نان نفقہ کا حقدار قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیر شرعی قرار دے دیا ہے۔ علمائے کرام نے اپنی متفقہ رائے کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے (جس میں عدالتی فیصلے کو غیر شرعی قرار دیا گیا ہے) کی تائید کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور اسے قرآن و سنت کے مطابق بنائے۔ ساتھ ہی ساتھ اسلام پسند وکلا سے کہا گیا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کریں۔

واضح رہے کہ چند روز قبل سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل احمد عباسی نے ایک ایسی خاتون کو نان و نفقہ دینے کا فیصلہ سنایا، جس کی نہ رخصتی ہوئی تھی اور نہ وہ خاوند سے ملی تھی کہ اس کو طلاق دے دی گئی۔ ملی مجلس شرعی کے صدر مولانا زاہد الراشدی، سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد امین اور دیگر علمائے کرام مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان، حافظ عبدالغفار روپڑی، مولانا عبدالمالک، مولانا عبدالرئوف فاروقی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مفتی شاہد عبید، حافظ حسن مدنی، حاجی عبداللطیف چیمہ، مولانا غضنفر عزیز، حافظ نعمان حامد، مولانا اسلم نقشبندی، حافظ ڈاکٹر محمد سلیم، مولانا عبداللہ مدنی، مولانا محمد عمران طحاوی اور دیگر علما نے اس فیصلے کا مفصل جائزہ لیا اور اس فیصلے میں اٹھائے گئے نکات کا قرآن و سنت کے احکامات کی روشنی میں جائزہ لیا اور قرار دیا کہ یہ فیصلہ قرآن مجید کی سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر اننچاس کے صریحاً خلاف ہے۔ جبکہ اس سے پہلے آئینی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی قرار دیا ہے کہ یہ فیصلہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ اس فیصلے میں مرد کے عورت پر قوام ہونے اور اس کے ایک درجہ زیادہ رکھنے کے قرآنی احکام کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

ملی مجلس شرعی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد امین کی طرف سے مجلس کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اور چونکہ پاکستان کے دستور میں لکھا ہے کہ یہاں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا، لہٰذا ہم اپنی عدالتوں خصوصاً ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ کوئی فیصلہ خلافِ قرآن و سنت اور خلافِ آئین نہیں کرے گا۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان کی چھوٹی بڑی عدالتیں خلاف اسلام فیصلے کرتی رہتی ہیں اور علما اس پر احتجاج بھی کرتے ہیں۔ لیکن معاملہ عموماً صحیح صورت میں حل نہیں ہوتا۔ جس سے معاشرے میں اور خصوصاً دینی حلقوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

ان کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل احمد عباسی کا حالیہ فیصلہ بھی غیر شرعی ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کیلئے واضح قوانین فراہم کرتا ہے۔ نکاح اور طلاق کے مسائل میں بھی قرآن و سنت نے جامع رہنمائی دی گئی ہے، جس میں عدل و انصاف اور حکمت دونوں پہلو ملحوظ رکھے گئے ہیں۔ ان ہی مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی عورت کا نکاح ہو جائے، مگر رخصتی اور ہم بستری نہ ہو (یعنی وہ غیر مدخولہ ہو) اور اس کو طلاق دے دی جائے تو کیا وہ شوہر کے نان و نفقہ کی حقدار ہوگی یا نہیں؟ اس مقالے میں قرآن، حدیث اور فقہ اسلامی کی روشنی میں اس مسئلے کا تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر محمد امین نے بتایا کہ مفصل جائزے میں ملی مجلس شرعی نے قرار دیا ہے کہ عدالتی فیصلے میں مرد کے قوام ہونے اور عورت کے نشوز ہونے کی غلط اور متجددانہ تشریح کی گئی ہے۔ عورت اور مرد کی مساوات کا مغربی تصور خلافِ اسلام ہے۔ مسلمانوں کیلئے اقوام متحدہ اور پاکستانی آئین کی انسانی حقوق کی دفعات عورت کے مغربی تصور کی علمبردار ہیں۔ یہ قرآن و سنت کے خلاف ہیں اور مسلمانوں کیلئے ان پر عمل جائز نہیں۔ بحیثیت مجموعی حالیہ فیصلہ اسلام کے عائلی نظام کے خلاف ہے۔

ملی مجلس شرعی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر امین نے بتایا کہ قرآن مجید کی سورہ البقرہ کی آیت نمبر دو سو چھتیس میں کہا گیا ہے کہ ’’تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو۔ اس سے پہلے کہ تم نے ان کو چھوا ہو یا ان کا مہر مقرر کیا ہو۔ اور انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ (مالی عطیہ) دے دو‘‘۔ یعنی یہ آیت واضح کرتی ہے کہ غیر مدخولہ عورت کو طلاق کی صورت میں صرف متاع (یعنی ایک وقتی عطیہ) ملے گا۔ مستقل نفقہ کا کوئی ذکر نہیں۔ اسی سورہ کی آیت نمبر دو سو سینتیس میں کہا گیا ہے کہ ’’اور اگر تم نے ان عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی اور ان کیلئے مہر مقرر کیا تھا تو اس مقررہ مہر کا آدھا ان کا حق ہے‘‘۔

علمائے کرام کے مطابق یہاں بھی صرف مہر کا ذکر ہے۔ نان و نفقہ کا نہیں۔ سورہ الاحزاب کی آیت نمبر اننچاس میں کہا گیا ہے کہ ’’جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو، پھر ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی عدت کا حق نہیں ہے‘‘۔ علما کا موقف ہے کہ عدت نہ ہونے کی وجہ سے نفقہ بھی ساقط ہو جاتا ہے۔ کیونکہ نان و نفقہ عدت کے ساتھ مشروط ہے۔ اسی طرح احادیث کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ صحیح بخاری میں ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ’’جس عورت کو دخول سے پہلے طلاق دی جائے، اس کیلئے کوئی نفقہ نہیں‘‘۔ سنن نسائی میں حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’ہر مطلقہ عورت کیلئے متاع ہے۔ سوائے اس عورت کے جسے دخول سے پہلے طلاق دی گئی ہو، اس کیلئے نصف مہر کافی ہے‘‘۔

فقہی دلائل میں بدائع الصنائع (امام کاسانیؒ) کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جس کے مطابق غیر مدخولہ مطلقہ عورت کیلئے نفقہ نہیں ہے۔ کیونکہ نفقہ استمتاع کے بدلے واجب ہوتا ہے اور یہاں وہ پایا ہی نہیں گیا۔ ملی مجلس شرعی کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ علمائے کرام اور دینی جماعتوں کو مل کر حکومت اور عدالتوں کے غیر اسلامی فیصلوں کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے اور انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردینا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ’’قرآن و سنت سپریم لاء ہیں۔ کامن لاء سپریم نہیں۔ مگر ہمارے یہاں ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ سپریم لاء پر کامن لاء کو ترجیح دیتے ہوئے اس کا اطلاق کیا جارہا ہے۔ جس کے سامنے بند باندھنا ضروری ہے‘‘۔