کشمیر میں 12 نشستیں اور مراعات خاتمے کی منطق وزیر خزانہ نے مسترد کردی

اسلام آباد (امت نیوز) آزاد کشمیر کے وزیر خزانہ عبدالماجد خان نے کہا ہے کہ مذاکرات میں پیش رفت ہوتے ہی حکومت انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بحال کر دے گی۔ الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ امن و امان کی صورتحال کے باعث یہ خدمات معطل کرنا پڑیں۔ تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ وفاقی حکومت کی اعلیٰ سطحی ٹیم کے ساتھ جاری مذاکرات سے جلد کوئی حل نکلے گا اور حالات معمول پر آ جائیں گے۔

 

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق پانچ روزہ مکمل لاک ڈاؤن اور پرتشدد جھڑپوں کے دوران کم از کم 15 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں، جن میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ الجزیرہ نے اموات کی تعداد مقامی حکام کے حوالے سے بتائی۔

 

 

وزیر خزانہ نے بتایا کہ حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی (جے اے اے سی) کے 38 مطالبات میں سے زیادہ تر مان لیے ہیں، تاہم دو نکات پر ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ یہ نکات مہاجرینِ مقیم پاکستان کے لیے مخصوص 12 نشستوں کا خاتمہ اور حکومتی اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ ہیں۔

 

انہوں نے کہا کہ ان نشستوں کو ختم کرنا غیر منطقی ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تقسیم ہند کے وقت اپنی زمینیں اور کاروبار چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی اور غربت میں زندگی شروع کی۔ عبدالمجید خان نے مؤقف اپنایا کہ اگر ان کو نمائندگی نہیں دی جائے گی تو ان کی قربانیاں کس مقصد کے لیے تھیں؟

 

وزیر خزانہ نے مراعات کے خاتمے کے مطالبے کی منطق بھی یہ کہہ کر مسترد کی کہ ازاد کشمیر سے بہت کم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور علاقے میں صرف پانچ ہزار ٹیکس دہندگان ہیں۔

 

ان کا کہنا ہے کہ خطے میں بمشکل 5 ہزار ٹیکس فائلرز موجود ہیں، اس کے باوجود بجلی کے نرخ کم ہیں اور محصولات بہت کم وصول ہوتے ہیں۔ اس لیے کئی مسائل کے حل کے لیے وفاقی حکومت سے وسائل حاصل کرنے پڑتے ہیں۔

 

عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کے مطابق حکومت نے 2024 میں عدالتی کمیشن بنا کر اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوا۔ ان مراعات میں وزرا اور افسران کے لیے دو سرکاری گاڑیاں، باڈی گارڈز، ذاتی عملہ اور لامحدود مفت ایندھن شامل ہیں۔

 

کمیٹی کے مطابق مہاجرین کی 12 نشستوں کو عوام ناقابل قبول قرار دے رہے ہیں کیونکہ یہ ایک طاقتور سیاسی بلاک میں بدل چکی ہیں جو ترقیاتی فنڈز پر اجارہ داری رکھتا ہے۔

 

 

الجزیرہ کے مطابق یہ دو برسوں میں تیسرا بڑا احتجاج ہے۔ 2023 میں بجلی کے مہنگے بلوں اور آٹے کی قلت کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہوا، جبکہ مئی 2024 میں لانگ مارچ اور جھڑپوں کے نتیجے میں پانچ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس وقت وزیراعظم شہباز شریف کی مداخلت پر حکومت نے سبسڈی اور رعایتی نرخ دینے کا اعلان کیا تھا۔

 

اب عوامی ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کمیٹی کے 38 نکاتی چارٹر میں انصاف، مفت تعلیم و صحت، اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ، ٹیکس میں چھوٹ، روزگار کے بہتر مواقع اور قانونی مقدمات کے خاتمے کے مطالبات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مظفرآباد میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کو فعال بنانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

 

 

28 ستمبر سے آزاد کشمیر میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز مکمل طور پر معطل ہیں۔ مارکیٹیں بند، ٹرانسپورٹ غائب اور کاروباری سرگرمیاں مفلوج ہیں، جس سے 40 لاکھ کی آبادی ش

دید مشکلات میں گھر گئی ہے۔