فائل فوٹو
فائل فوٹو

ٹرمپ امن منصوبے پر مسلم ممالک موقف بدلنے پر مجبور

میگزین رپورٹ :

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے متنازع امن پلان اور جنگی مجرم ٹونی بلیئر کی غزہ میں بطور ایڈمنسٹریٹر تعنیاتی پر حامی بھرنے سے عرب اور دیگر مسلم ممالک کے حکمران شدید عوامی تنقید کی زد میں آگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مسلم ممالک کے سربراہ موقف بدلنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹونی بلیئر کو مشرق وسطیٰ میں کسی بھی قسم کی امن کوشش کا سربراہ بنانا ایسا ہی ہے، جیسے آگ لگانے والے کو فائر بریگیڈ کا سربراہ بنا دیا جائے یا چور کو چیف جاسوس مقرر کر دیا جائے۔

واضح رہے کہ جنگی مجرم ٹونی بلیئر کی غزہ پلان میں بطور انتظامی سربراہ ممکنہ تعیناتی کے ٹرمپ فیصلے پر بڑے اور بااثر مسلم ممالک نے خیر مقدم کیا ہے۔ ان ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان میں ٹرمپ کی کوششوں کو سراہا گیا۔ ان ممالک میں متحدہ عرب امارات، قطر، ترکیہ، مصر، اردن، پاکستان، سعودی عرب اور انڈونیشیا شامل ہیں۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق عوامی دبائو کے سبب پاکستان، قطر اور ترکیہ اپنے موقف میں تیزی سے تبدیلی لارہے ہیں۔ جبکہ مصر بھی اپنے موقف میں نظرثانی پر مجبور ہوگیا ہے۔ تاہم سعودیہ، اردن، انڈونیشیا اور عرب امارات نے تاحال متنازعہ مجوزہ پلان پر اپنی حمایت برقرار رکھی ہوئی ہے۔ تاہم تجزیہ کارروں کا ماننا ہے کہ ہوا کا رخ بدلتے ہی مزید ممالک اس پلان کی کھل کر مخالفت کر سکتے ہیں۔ ان ممالک کی جانب سے کھلی اور سرکاری مخالفت نہیں کی گئی۔ لیکن اندرونی سطح پر تحفظات پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر قطر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنے اور غزہ کی حکمرانی کے امور پر اسرائیل کی حمایت میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں بھی سیاسی اور عوامی سطح پر اس حمایت پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کی اصل اور شدید مخالفت فلسطینیوں کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے امریکی نیوز آئوٹ لیٹ ایکسِیوس (Axios) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ امن پلان کے مندرجات قبل از وقت شائع کرنے پر عرب حکمران نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ قطر میں حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنے کی اسرائیل کی ناکام کوشش نے اس سفارتی دباؤ کو جنم دیا، جو بالآخر امریکی صدر کے نئے مجوزہ غزہ جنگ بندی اور یرغمالی معاہدے کی تشکیل کا باعث بنا۔ ایکسِیوس کے مطابق 9 ستمبر کو دوحہ پر حملے نے عرب رہنماؤں میں اسرائیل کے خلاف غصے کی ایک لہر پیدا کی اور غزہ کی جنگ کے سفارتی حل کیلئے نئے سرے سے مطالبات سامنے آئے۔

رپورٹ میں ٹرمپ کے ایک مشیر کے حوالے سے کہا گیا کہ، عرب ایک ہی آواز میں بات کر رہے تھے۔ یہ تیور دیکھ کر ٹرمپ نے غزہ فائل کھولنے پر آمادگی ظاہر کی اور ایک پیس ڈیل کی جانب مثبت اشارے دیئے۔ آؤٹ لیٹ نے مزید کہا کہ سفارتی موقع کو سمجھتے ہوئے وٹکوف اور جیرڈ کوشنر نے ٹرمپ کی منظور شدہ اور پہلے سے تیار شدہ پیس پلان نکاتی صورت میں پیش کیے۔ جس پر کشنر سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے ساتھ پہلے ہی کام کر چکے تھے۔

اس پلان پر عرب ممالک نے مشروط حمایت کی اور ٹرمپ کو کہا کہ اس پیس ڈیل کے مندرجات کو فوری طور پر پبلک نہ کیے جائیں۔ تاہم ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد اس ڈیل کے چند مندرجات تبدیل کردیے۔ جس میں فوجی انخلا کی شرائط عائد کی گئی تھی۔ جس پر عرب رہنما غصے میں آ گئے اور انہوں نے منظور شدہ تبدیلیوں تک منصوبے کے عوامی اعلان میں تاخیر کا مطالبہ کیا۔ عربوں کی ناراضگی اور قطر کی جانب سے منصوبے کی اشاعت میں تاخیر کے مشورے کے باوجود ٹرمپ نے پیر کو اسے جاری کر دیا۔ اگلے ہی دن ٹرمپ نے کہا کہ وہ حماس کی جانب سے تین یا چار دن کے اندر جواب کی توقع رکھتے ہیں۔

دوسری جانب عراق اور افغانستان میں ہزاروں نہتے شہریوں کے قاتل ٹونی بلیئر کی غزہ میں ممکنہ ایڈمسٹریٹر تعیناتی پر شدید عوامی اور سیاسی ردعمل سامنے آرہا ہے۔ ٹونی بلیئر نے 2003ء میں عراق پر حملہ کیا۔ جس میں لاکھوں افراد شہید و زخمی ہوئے۔ عرب دنیا اور برطانیہ میں بہت سے ناقدین ٹونی بلیئر کو اس جنگ میں ان کے کردار کی وجہ سے جنگی مجرم قرار دیتے ہیں۔ برطانوی چلکوٹ انکوائری نے بھی یہ نتیجہ نکالا تھا کہ جنگ میں شامل ہونے کی قانونی بنیادیں تسلی بخش نہیں تھیں۔ ٹونی بلیئر 2001ء میں امریکہ کے ساتھ افغان جنگ میں بھی شامل ہوچکے ہیں۔

بتایا جارہا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے داماد جیرڈ کوشنر کے بزنس پارٹنر کی بنیاد پر ٹونی بلیئر کو غزہ میں عبوری انتظامیہ کی سربراہی کیلئے نامزد کیا ہے۔ جنہیں مجوزہ غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی (GITA) کی قیادت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ 36 سالہ جیرڈ کوشنر کو پراپرٹی ڈویلپر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ ٹونی بلیئر کے انسٹی ٹیوٹ آف گلوبل چینج ادارے کے حصص ہولڈر بھی ہیں۔ جبکہ ٹونی بلیئر کے امارات اور دیگر عرب ممالک سے بھی گہرے تعلقات ہیں۔ اسی سبب عرب حکمران کھل کر ٹونی بلیئر کی مخالفت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں ٹونی بلیئر کی غزہ میں ممکنہ تعیناتی پر عرب ممالک کے عوام میں غم و غصہ انتہائی شدید ہو سکتا ہے۔