ٹی ٹی بابا اخباری صنعت کا مجاہد، عوامی خدمت کا درخشاں باب

تحریر: گلشاد احمد بٹ

8 اکتوبر 2005ء کا تباہ کن زلزلہ آزاد کشمیر کی تاریخ کا ایک ایسا دن ہے جو قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا۔ ہزاروں افراد لقمۂ اجل بن گئے، بستیاں ملبے کا ڈھیر بن گئیں، اور ایک پوری نسل صدموں سے دوچار ہوئی۔ انہی شہداء میں ایک عظیم نام چوہدری محب اللہ المعروف ٹی ٹی بابا کا بھی شامل ہے۔ نصف صدی سے زائد عرصہ عوامی خدمت، محنت اور جدوجہد میں بسر کرنے کے بعد وہ اسی سانحے میں شہید ہو گئے۔ ان کی زندگی کا سفر تو ختم ہو گیا، مگر ان کی قربانیاں اور خدمات کا روشن چراغ آج بھی تاریخ کے صفحات میں جگمگا رہا ہے۔
ٹی ٹی بابا 1937ء میں مظفرآباد کی یونین کونسل گوجرہ کے گاوں اپر تریڑی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سہداللہ گجر تھا۔ ان کی چار بہنیں اور ایک کے بھائی تھا۔ کم عمری ہی سے ان کے اندر خدمتِ خلق اور سیاست کا جذبہ موجزن تھا، جو آگے چل کر ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو بن گیا۔
محض 14 سال کی عمر میں، 1951ء میں، انہوں نے اخباری صنعت سے عملی وابستگی اختیار کی۔ اس وقت مظفرآباد میں کوئی نیوز ایجنسی موجود نہ تھی۔ وہ شہر کے واحد اخبار فروش تھے جو ہر نیا اخبار آتے ہی بلند آواز میں تازہ ترین شہہ سرخیاں پڑھ کر لوگوں کو سناتے۔ اس انوکھے انداز نے انہیں جلد ہی مظفرآباد میں ایک منفرد مقام عطا کیا۔ ان کے اردگرد ہمیشہ اہلِ ذوق اور عوام کا ہجوم رہتا جو خبروں کے منتظر ہوتے۔
اس زمانے میں اخبارات پہنچانا نہایت مشکل کام تھا۔ راولپنڈی سے ایک ہی بس نکلتی جس کے ذریعے اخبارات کے بنڈل مظفرآباد پہنچتے۔ عوام میں تازہ خبروں کا ایسا جنون تھا کہ جنگ، نوائے وقت، آمروز، مشرق اور کوہستان ٹائمز جیسے اخبارات ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے، جبکہ انگریزی اخبارات ڈان، دی نیوز اور دی مسلم بھی بڑی تعداد میں پڑھے جاتے تھے۔
ٹی ٹی بابا صرف اخبار فروش ہی نہیں بلکہ سیاست اور عوامی خدمت کے بھی شیدائی تھے۔ 1967ء میں انہوں نے آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا۔ اس وقت بی ڈی ممبران کے ذریعے اسمبلی کے اراکین کا انتخاب ہوتا تھا۔ ان کے الیکشن کی مہم میں اس وقت کی کئی بڑی سیاسی شخصیات نے ساتھ دیا، جن میں راجہ حیدر خان (والد راجہ فاروق حیدر خان)، سید بنیاد علی گیلانی (والد آصف گیلانی)، ملک غلام نبی (والد شمع ملک) اور سردار شاہ ہاشمی شامل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ سید بنیاد علی گیلانی نے ہی محبت سے انہیں "ٹی ٹی بابا” کا نام دیا جو آگے چل کر ان کی پہچان بن گیا۔
ٹی ٹی بابا نہایت محنتی اور جفا کش شخصیت کے مالک تھے۔ دن کو وہ اخبارات فروخت کرتے، شام کو کینٹین چلاتے اور رات کو پولیس افسران کے گھروں میں چوکیداری کرتے۔ انہی وسائل سے انہوں نے اپنی بڑی اولاد کی پرورش کی۔ ان کے پانچ بیٹے اور سات بیٹیاں ہیں۔
ان کے بیٹوں میں چوہدری اشرف (مرحوم)، جاوید چوہدری (سینئر صحافی و صدرِ ریاست کے پرسنل اسسٹنٹ)، چوہدری اورنگزیب (سوشل ویلفیئر ملازم)، چوہدری ہشمت (اخبار فروش یونین کے صدر)، اور چوہدری جہانگیر (ٹرانسپورٹر) شامل ہیں۔
ٹی ٹی بابا شہر میں نئی سہولتیں متعارف کرانے والے بھی تھے۔ وہ مظفرآباد کے پہلے شخص تھے جنہوں نے 1970 سے قبل ایک سوزوکی اور پھر ایک رکشہ شہر میں لائے۔ اس سے قبل مظفرآباد میں ایسی کوئی سواری موجود نہیں تھی۔ یوں انہوں نے شہریوں کو آسان اور جدید سفری سہولت فراہم کی۔
ٹی ٹی بابا کے تعلقات تقریباً تمام بڑے سیاستدانوں سے رہے۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، صاحبزادہ اسحاق ظفر، ممتاز راٹھور اور بالخصوص کے ایچ خورشید مرحوم ان کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔
1987ء میں جب کے ایچ خورشید نے حکومت کے خلاف تحریک چلائی تو ٹی ٹی بابا نے انہیں اپنی نیوز ایجنسی میں پناہ دی اور شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ 1995ء میں جب بیرسٹر سلطان پیپلز پارٹی کے صدر تھے تو وہ ٹی ٹی بابا کی سوزوکی میں دومشی گئے اور وہاں خطاب کیا۔ ان کی کوششوں سے دومشی راڑو کے لیے پرائمری سکول، سڑکوں کی تعمیر اور بیلی برج کی منظوری ممکن ہوئی۔
جاوید چوہدری کے بقول ان کے والد نہایت دلیر اور نڈر شخصیت کے مالک تھے۔ 1990ء کے سیلاب کے دوران جب دومشی کا پل ٹوٹ گیا، تو وہ ایک فریج گھر لے جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے رسے کی مدد سے فریج کو دریا پار کرنے کی کوشش کی اور خود بھی لٹک کر عبور کرنے لگے۔ بدقسمتی سے فریج دریا برد ہو گیا، لیکن اللہ کے کرم سے وہ بحفاظت پار اتر آئے۔ یہ واقعہ ان کی بہادری اور حوصلے کی ایک روشن مثال ہے۔
ٹی ٹی بابا نے ایک ایسے دور میں اخباری صنعت کی خدمت کی جب وسائل کم اور مشکلات زیادہ تھیں۔ ان کی محنت، خلوص اور عوامی خدمت نے انہیں مظفرآباد کی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش کردار بنا دیا۔ آج ان کے بیٹے اور شاگرد مختلف شعبوں میں ان کی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
ٹی ٹی بابا کی زندگی ہم سب کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ انہوں نے دکھایا کہ بڑے عہدے یا وسائل کے بغیر بھی خلوص، محنت اور عزم کے ساتھ عوامی خدمت کی جا سکتی ہے۔ وہ صحافت، سیاست، عوامی خدمت اور جدوجہد کا وہ باب ہیں جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔