عمران خان :
برطانیہ سے چوری ہونے والی بیش قیمت رینج روور کار کراچی تک پہنچانے میں ایک بار پھر اسی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا جو مختلف غیر ملکی سفارت خانوں کے اسٹاف اور وزارت خارجہ کے افسران کی ملی بھگت سے سفارتی استثنیٰ کی آڑ میں اربوں روپے کی غیر ملکی شراب، لگژری گاڑیاں اور دیگر قیمتی غیر ملکی سامان بندرگاہوں سے کلیئر کروا کر کئی برسوں سے مقامی مارکیٹ میں غیر قانونی طور پر فروخت کر رہا ہے۔
اس نیٹ ورک کے افراد سفارت خانوں کے اتھارٹی لیٹرز، وزارت خارجہ کی این او سی کو استعمال کرتے ہیں اور بعد ازاں کسٹمز اور سندھ ایکسائز کے کرپٹ افسران کو بھاری رشوت دے کر کلئیرنس اور رجسٹریشن کے مراحل تیزی سے نمٹا لیتے ہیں۔ اس بااثر نیٹ ورک کو متعدد بار اقتدار میں رہنے والی بڑی سیاسی جماعت کی اعلیٰ ترین عہدیداران کی سرپرستی حاصل ہے، جس میں ایک معروف ماڈل گرل بھی شامل ہے۔ اس نیٹ ورک کی نشاندہی دو برس قبل بھی ایک واردات پکڑے جانے پر ہوچکی تھی، تاہم بعد ازاں معاملہ دبا دیا گیا۔
موصول معلومات کے مطابق کراچی ایک بار پھر بین الاقوامی اسمگلنگ نیٹ ورک کے مرکز کے طور پر سامنے آیا ہے، جہاں برطانیہ سے چوری شدہ قیمتی گاڑیوں کی آمد اور رجسٹریشن کے انکشافات نے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ انٹرپول کی سطح پر بھی تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق برطانوی پولیس کی رپورٹ کے مطابق سیاہ رنگ کی رینج روور اسپورٹس، جو 22 نومبر 2022ء کو برطانیہ کے علاقے ہیروگیٹ (نارتھ یارکشائر) سے چوری ہوئی تھی، حال ہی میں کراچی میں دیکھی گئی۔
جس پر انٹرپول نے پاکستان کے نیشنل سینٹرل بیورو (NCB) کے ذریعے مقامی پولیس کو مطلع کیا کہ گاڑی کا ٹریکر سگنل کراچی کے علاقوں صدر ٹاؤن، کورنگی سروس روڈ اور اعظم بستی کے قریب ریکارڈ ہوا۔ ان اطلاعات کے بعد سندھ پولیس نے اس معاملے پر تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ اس ضمن میں ایس ایس پی اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل کراچی امجد شیخ کا کہنا ہے ’’ہم نے انٹرپول سے مزید تفصیلات طلب کی ہیں۔ صرف ایک ٹریس سے گاڑی تک پہنچنا مشکل ہے، تاہم برآمدگی کی صورت میں مقدمہ درج کر کے اصل مالک کو گاڑی واپس دلانے کا عمل شروع کیا جائے گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’گاڑی زمینی راستے سے نہیں آئی ہوگی بلکہ کسی بندرگاہ کے ذریعے درآمد کی گئی۔ اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کلیئرنس کے وقت اس کے کاغذات کی جانچ کیوں نہیں کی گئی۔‘‘ ان کا واضح اشارہ اس معاملے میں کسٹمز اپریزمنٹ کے متعلقہ افسران کی غفلت یا ملی بھگت کی جانب تھا۔ اس معاملے پر مزید تفتیش جاری ہے جبکہ ادھر انٹر پول نے بھی کار کے ٹریکر کا ڈیٹا طلب کر لیا ہے جس کا برطانوی حکام سے تبادلہ کیا جائے گا۔ جبکہ کار کی درآمد کے حوالے سے محکمہ کسٹمز سے بھی ڈیٹا لیا جارہا ہے تاکہ دیکھا جاسکے کہ مذکورہ کار کو کلئیر کروانے کے لئے کن افراد نے کون سی دستاویزات جمع کروائی تھیں۔
موصول دستاویزات کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں جب چوری شدہ برطانوی گاڑیاں کراچی میں برآمد ہوئی ہوں۔ اس سے قبل 2022ء میں لندن سے چوری شدہ بینٹلے ملسین وی 8 آٹومیٹک کراچی کے ڈیفنس علاقے سے برآمد ہوئی تھی جس کی مالیت 30 کروڑ روپے سے زائد تھی۔ وہ گاڑی پاکستان کسٹمز نے ایک غیر ملکی خفیہ ایجنسی کی اطلاع پر ضبط کی تھی۔ اس کیس میں دو افراد نوید بلوانی اور جمیل کو گرفتار کیا گیا جبکہ کیس کا مرکزی کردار نوید یامین بتایا گیا۔ تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ نوید یامین نے مشکوک سفارتی دستاویزات کے ذریعے گاڑیاں کراچی منتقل کیں۔ کسٹمز کی رپورٹ کے مطابق اس نے اس مقصد کے لیے ’’سی ہارس شپنگ کمپنی‘‘ اور ’’اوشین ٹریڈ سینٹر‘‘ نامی دو کمپنیوں کو استعمال کیا۔
یہ دونوں کمپنیاں دراصل برطانوی اور خلیجی ممالک میں موجود نیٹ ورک کے لیے کور کے طور پر کام کرتی تھیں۔ اس معاملے پر مزید تفتیش میں کسٹمز پریونٹو کلکٹریٹ کراچی کی عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مرکزی ملزم نوید یامین کے ساتھ نوید بلوانی نے بروکر کی حیثیت سے کام کیا۔ جو قیمتی گاڑیوں کے لیے خریدار تلاش کرتا اور کمیشن حاصل کرتا تھا۔
تفتیش کے دوران ایکسائز ڈپارٹمنٹ کے افسران، کسٹمز اہلکاروں اور بعض سیاسی شخصیات کی ملوث ہونے کی تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، معاملے کو دبانے کے لیے کسٹمز افسران پر بے انتہا دباؤ ڈالا گیا، تاہم تفتیشی ٹیم نے دباؤ قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے تحقیقات کو تیز کر دیا تھا اور اس حوالے سے عبوری چالان عدالت میں جمع کروا دیا گیا تھا جس میں نیٹ ورک کے طریقہ کار، کمپنیوں کے مالی ریکارڈ اور بیرون ملک روابط سے متعلق اہم شواہد شامل کیے گئے تھے۔ تاہم بعد ازاں مرکزی ملزم کے کراچی کلفٹن میں قائم اہم سیاسی گھرانے سے تعلقات نکلنے پر ہاتھ ہلکا کردیا گیا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ مرکزی ملزم اس وقت معروف ماڈل گرل کا فلیٹ بھی استعمال کررہا تھا جس کے اہم ترین سیاسی شخصیت سے خصوصی تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور ان پر بھی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے الزام عائد ہوچکے ہیں۔
بنٹلے کار کی تحقیقات کے مطابق نوید یامین 2004ء سے کار امپورٹ کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ اس کے خلاف ماضی میں ایف آئی اے سمیت مختلف تھانوں میں مالیاتی فراڈ اور کریڈٹ کارڈ ڈیٹا چوری کے مقدمات بھی درج ہو چکے ہیں۔ بعد ازاں اس نے بڑے کام شروع کئے اور اہم افراد کی نظروں میں مقام بنا لیا جنہوں نے اس کی سرپرستی شروع کردی۔ اس نے ’’سی ہارس شپنگ کمپنی‘‘ کے نام سے ایک فرم رجسٹرڈ کروائی جس کے ذریعے تقریباً 28 ممالک میں تجارتی سرگرمیاں ظاہر کی گئیں۔ یہی کمپنی برطانیہ سے گاڑیاں کراچی منتقل کرنے کے لیے استعمال کی گئی جبکہ ’’اوشین ٹریڈ سینٹر‘‘ کے ذریعے گاڑیوں کی کلیئرنس کرائی گئی۔
اس معاملے میں مزید انکشاف ہوا کہ اسی نیٹ ورک نے رواں برس کے آغاز میں ایک خلیجی ملک کے سفارت خانے کے نام پر آنے والے سامان کے کنٹینرز میں 12 ہزار غیر ملکی شراب کی بوتلیں بھی منگوائیں۔ ایک کھیپ پورٹ قاسم پر پکڑی گئی جبکہ دوسری حیدرآباد کے قریب سے برآمد ہوئی۔ دونوں کیسز میں نوید یامین مرکزی ملزم کے طور پر نامزد ہے اور اس کے ساتھ ایک سیاسی جماعت کے رکن اسمبلی اور ان کے بیٹے کے ملوث ہونے کے شواہد بھی سامنے آئے۔
تحقیقات میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ پچھلی ایک دہائی کے دوران سفارت خانوں کے نام پر درآمد ہونے والے سامان میں بھاری کمیشن کے عوض وفاقی وزارتِ خارجہ کے سرٹیفکیٹس استعمال کیے گئے۔ ان جعلی اسناد کے ذریعے اربوں روپے مالیت کی غیر ملکی گاڑیاں اور ممنوعہ اشیا درآمد کی گئیں، جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔
ذرائع کے بقول یورپی ممالک میں مقیم جواد سمیع نامی پاکستانی شہری کو نوید یامین کا قریبی ساتھی قرار دیا گیا تھا۔ یہ شخص برطانیہ اور اس کے اطراف میں مقیم پاکستانی کار ڈیلروں کے ساتھ مل کر قیمتی گاڑیاں مارگیج پر حاصل کرتا اور پھر انہیں چوری ظاہر کر کے پاکستان بھیجنے والے نیٹ ورک کے حوالے کر دیتا۔ گاڑی پاکستان پہنچنے کے بعد سفارتی عملے کو کمیشن دے کر رجسٹرڈ کرائی جاتی اور فروخت کر دی جاتی، جس سے نیٹ ورک اربوں روپے کماتا رہا۔ ذرائع کے مطابق جواد سمیع حال ہی میں گلاسگو سے دبئی اور وہاں سے خاموشی سے کراچی واپس آیا تاہم اس کو گرفتار نہیں کیا گیا جس کے بعد وہ آسانی سے واپس بھی چلاگیا، یہ شخص اب تک کم از کم چار گاڑیاں اسی طریقے سے پاکستان بھیج چکا ہے۔
کسٹمز ذرائع کے مطابق یہ کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ پاکستان میں کئی چوری شدہ گاڑیاں جعلی یا سفارتی کاغذات پر رجسٹر کی جا چکی ہیں۔ یہ گاڑیاں صرف مالی فراڈ نہیں بلکہ سیکیورٹی رسک بھی ہیں۔ کیونکہ ان کے ذریعے اصل مجرموں تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ ذرائع کے بقول برطانوی میڈیا کے مطابق 2023ء میں رینج روور اور لینڈ روور ماڈلز کی چوریاں ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہیں۔ سال کے پہلے چھ ماہ میں بازیاب ہونے والی بیشتر گاڑیاں انہی برانڈز سے تعلق رکھتی تھیں۔ تاہم، جیگوار لینڈ روور کے سی ای او ایڈرین مارڈیل نے اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’رینج روور سب سے زیادہ چوری ہونے والی گاڑی نہیں، بلکہ دیگر کمپنیوں کی گاڑیاں بھی نشانہ بن رہی ہیں‘‘۔
ذرائع کے مطابق انٹرپول کی حالیہ رپورٹ کے بعد پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک بار پھر متحرک ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، نیشنل سینٹرل بیورو (NCB) نے متعلقہ بندرگاہوں سے درآمدی ریکارڈ طلب کر لیا ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ گاڑی کس طرح کلیئر ہوئی۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ اگر بروقت اور شفاف کارروائی نہ کی گئی تو پاکستان کا نام ایک بار پھر بین الاقوامی منی لانڈرنگ اور اسمگلنگ کی فہرستوں میں شامل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس انکشاف نے واضح کر دیا ہے کہ قیمتی گاڑیوں کی چوری اور ان کی سفارتی کلیئرنس کے پیچھے ایک منظم مافیا کام کر رہی ہے جو نہ صرف ملکی نظام کو چکمہ دے رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos