محمد قاسم:
افغان طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے دارالحکومت کابل میں انٹرنیٹ کی بحالی پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنے حکم سے بغاوت قرار دے دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ روز مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کی قیادت میں قندھار میں ایک اجلاس ہوا، جس میں مولوی ہیبت اللہ کے ایڈوائزر شیخ حکیم اللہ حقانی نے بھی شرکت کی۔
مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے رئیس الوزرا مولانا حسن اخوند اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی جانب سے کابل میں انٹرنیٹ کی بحالی پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنی حکم عدولی قرار دیا اور اپنے ایڈوائزر کو ہدایت کی کہ وہ اس سلسلے میں وزرا اور حکومتی معاونین سے بات کریں۔ انٹرنیٹ سے افغانستان میں قوانین اور افغان حکومت کو شدید خطرہ ہے۔ کیونکہ انٹرنیٹ کے ذریعے امریکا اور غیر ملکی ادارے سابق حکومتی اہلکاروں سمیت فوجیوں کے ساتھ رابطوں میں ہیں اور کسی بھی وقت اس حوالے سے بغاوت ہو سکتی ہے۔ اس لئے افغان طالبان حکومت غیر ملکی دبائو میں آنے کے بجائے اپنے امیر کی اطاعت کریں۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق مولوی حسن اخوند نے بینکوں اور بعض تجارتی کمپنیوں کی جانب سے کاروباری معاملات میں مشکلات پر انٹرنیٹ کو بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولوی حسن اخوند اور ان کا گروپ جس میں ملا برادر، عباس استنکزئی اور سراج الدین حقانی شامل ہیں، ملک میں خواتین کی تعلیم پر پابندی کو بھی ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم اس سے افغان طالبان کے اندر شدید اختلافات پیدا ہوں گے اور سخت گیر عناصر جن کا حکومت پر 80 فیصد سے زیادہ کنٹرول ہے، وہ ان متوازن آوازوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتے ہیں۔ جبکہ اب ان کے پاس موقع بھی ہے کہ وہ امیر کی حکم عدولی کو بہانا بناکر مخالفین کو راستے سے ہٹا دیں۔
ذرائع کے مطابق افغان وزیر فاروق اعظم کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی کے حوالے سے تقریر کے بعد انہیں حراست میں لیا گیا تھا اور تین ہفتے قید میں رہنے کے بعد ان سے تحریری طور پر معافی نامہ لکھوا کر رہا کر دیا گیا۔ تاہم ان کے افغانستان سے باہر جانے پر پابندی ہے۔ ذرائع کے بقول مولوی ہیبت اللہ نے اہم وزارت کے دفاتر کو قندھار منتقل کر دیا ہے۔ جبکہ مزید وزارتوں کے دفاتر کو قندھا ر منتقل کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ کیونکہ امیر طالبان نے کابل آنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ قندھار میں آہستہ آہستہ اپنی طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے گزشتہ اجلاس میں اپنے رفقا کو بتایا کہ بعض وزرا سابق امیر ملا عمر مجاہد کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ انہوں نے طالبان کیلئے جو رہنما ہدایات اپنی زندگی میں لکھوا کر دیں، اسی کے مطابق حکومت کو چلایا جائے گا۔ تاہم ذرائع کے مطابق یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ اور وزرا کے درمیان اختلافات سے افغانستان میں مسائل پیدا ہوجائیں۔ امریکا کی جانب سے بگرام ایئر بیس واپس لینے کی دھمکیوں کے بعد مولوی ہیبت اللہ کے قریبی ساتھیوں اور وفادار یونٹ کے فوجی کمانڈرز اور سپاہیوں کے بائیومیٹرک کے تمام ریکارڈ کو ضائع کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ہزاروں فوجی اہلکاروں کے بائیومیٹرک ڈیٹا کو دو ہفتے قبل ضائع کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ بعض وزرا کی جانب سے پاکستان کے خلاف بیانات دینے پر بھی خاصے برہم ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملات خراب ہوں۔ انہوں نے گزشتہ اجلاس میں اپنے خصوصی صلاح کاروں کو بتایا کہ افغانستان کی اسلامی حکومت کے خلاف آنے والے مہینوں میں سازشیں بڑھ جائیں گی۔ جب غزہ اور یوکرین کی جنگ ختم ہو گی تو افغانستان کی ایک مجاہد حکومت کے خلاف انسانی حقوق اور خواتین حقوق کے نام پر سازشیں شروع کی جائیں گی۔
دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ امریکی سی آئی اے اور حکام نے سابق فوجی اہلکاروں کے ساتھ روابط میں اضافہ کر دیا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ افغان باشندے ہی طالبان حکومت کے خلاف کھڑے ہوں تاکہ امریکا کو افغانستان کے خلاف کارروائی کرنے میں آسانی ہو۔ جبکہ پاکستان، چین، ایران اور روس نے طالبان حکومت سے پاکستان اور ایران کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک کرنے اور مخالفین کو ساتھ ملا کر حکومت کرنے کی درخواست کی ہے۔
منگل کے روز روس کے دارالحکومت میں ماسکو فارمیٹ جس میں پاکستان، افغانستان، ایران، روس، چین، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان شامل ہیں، کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں افغانستان کی نمائندگی امیر خان متقی نے کی اور مشترکہ طور پر ان ممالک نے گزشتہ اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے حوالے سے امیر خان متقی سے اصرار کیا کہ اگر افغان حکومت ماسکو فارمیٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرتی تو مستقبل میں افغان حکومت کیلیے ان ممالک کے ساتھ کام کرنے میں دشواری ہو گی۔ کیونکہ یہ ممالک افغانستان میں ایک مستقل حکومت کی کوشش کر رہے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos