فائل فوٹو
فائل فوٹو

تعلیمی بورڈ میں رہائش کے ساتھ کروڑوں روپے کے رینٹ الائونس

سید نبیل اختر:
میٹرک و انٹر بورڈ کے افسران و ملازمین کو رہائشی گھرالاٹ کرنے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طور پر کروڑوں روپے ہائوس رینٹ الائونس کی مد میں ادا کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

یہ ادائیگیاں 2002ء سے جاری ہیں، جس پر سب سے پہلے اعتراض 2010ء کی آڈٹ رپورٹ میں اٹھایا گیا تھا۔ نگراں حکومت کے دور میں نگران وزیر یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈیپارٹمنٹ محمد علی ملکانی کی درخواست پر آڈیٹر جنرل نے میٹرک اور انٹر بورڈ کا 3 برس کا اسپیشل آڈٹ کیا تھا، جس میں الائونسز کی مد میں 74 کروڑ 13 لاکھ 60 ہزار روپے کی خلاف ضابطہ ادائیگی پر آڈٹ اعتراض سامنے آیا تھا۔ اس آڈٹ اعتراض کو ختم یا سیٹل کرانے کیلئے دونوں بورڈز کے حکام نے سرتوڑ کوششیں کیں۔ لیکن انہیں یہ کہہ کر آڈٹ اعتراض دور کرنے سے منع کر دیا گیا کہ یہ سرکاری خزانے کا نقصان ہے اور ملازمین و افسران سے یہ رقوم بہر صورت وصول کرنا ہوگا۔

ذرائع نے بتایا کہ آڈٹ کو فراہم کردہ تفصیلات میں ان افسران و ملازمین کا تو کوئی ذکر ہی موجود نہیں، جو برسہا برس ہائوس رینٹ الائونس کی رقم وصول کرتے رہے اور انہیں ریٹائرمنٹ کے وقت تمام فنڈز دے کر رخصت کر دیا گیا۔ آڈٹ نے پہلی بار آج سے پندرہ برس قبل اس غیر قانونی ادائیگی کی نشاندہی کی تھی۔ جس پر دونوں بورڈز کے کسی بھی سربراہ نے سرکاری خزانہ کو پہنچے والے نقصان سے بچنے کیلئے اقدامات کیے ہوں۔ چیئرمین تعینات ہوتے رہے اور ریٹائر ہوکر گھر جاتے رہے۔ لیکن کسی نے بھی اس غیر قانونی ادائیگی کو روکنے کے احکامات نہیں دیے۔

ذرائع نے بتایا کہ تین برس کے آڈٹ میں ہائوس رینٹ کی مد میں ہونے والی غیر قانونی ادائیگی سات کروڑ روپے سے زائد بتائی گئی ہے۔ تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ رقم سالانہ سوا دو کروڑ روپے بھی ادا کی جاتی ہو تو 23 برس میں مذکورہ ادائیگی 53 کروڑ روپے سے زائد بنے گی۔ بورڈ ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹر و میٹرک بورڈ کے سربراہان چونکہ حال ہی میں تعینات ہوئے ہیں۔ ممکن ہے وہ اس غیر قانونی ادائیگی سے واقف نہ ہوں۔ تاہم ادارے میں موجود اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران اس غیر قانونی ادائیگی سے لاعلم نہیں۔ آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میٹرک و انٹر بورڈ کے سیکریٹری اور ناظمین امتحانات ایڈمن انچارجز، ٹرانسپورٹ انچارجز اور دیگر افسران انٹر بورڈ کالونی میں واقع سرکاری رہائش گاہوں کو استعمال کر رہے ہیں اور دوسری جانب ماہانہ ہائوس رینٹ الائونس بھی وصول کرنے میں مصروف ہیں۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق 18 گریڈ کے افسران 75 ہزار 40 روپے، 17 گریڈ کے افسران 67 ہزار 627 روپے، 16 گریڈ کے افسران 43 ہزار 351 روپے، 14 گریڈ کے ملازمین 30 ہزار 387 روپے، 11 گریڈ کے ملازمین 24 ہزار 59 روپے، 8 گریڈ کے ملازمین 32 ہزار 823 روپے، 5 گریڈ کے ملازمین 20 ہزار 657 روپے اور 2 گریڈ کے ملازمین 14 ہزار 819 روپے وصول کر رہے ہیں۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ ملازمین سے کروڑوں روپے کی ریکوری کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ سرکاری خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ہوسکے۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں ایئر پیرا 33 ریکوری آف ہائوس الائونس کے عنوان سے 3 کروڑ 45 لاکھ 55 ہزار روپے وصول کرنے والے افسران و ملازمین کے نام، ان کے پے گروپ، ہائوس رینٹ، ماہانہ الائونس اور چار برس میں انہیں ادا کی جانے والی خطیر رقم کے اعداد و شمار بھی ظاہر کیے ہیں۔ اس پیرا کے ریفرنس میں 13 مئی 1997ء کو جاری ضابطے کا حوالہ دیا گیا، جو فنانس ڈپارٹمنٹ حکومت سندھ کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔ اس میں واضح کہا گیا کہ جن افسران و ملازمین کو سرکاری رہائش گاہیں الاٹ کی گئی ہوں، انہیں ہائوس رینٹ الائونس ادا نہیں کیا جائے گا اور ان سے مذکورہ رہائش گاہ پر 5 فیصد ریکوری بھی کی جائے۔ تاہم یہاں قواعد کے برخلاف افسران و ملازمین کو رہائش گاہوں کے ساتھ ساتھ بنیادی تنخواہ کا ستّر فیصد ہائوس رینٹ الائونس بھی دیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ 2007-02 سے جاری ہے۔

آڈٹ رپورٹ میں میٹرک بورڈ کے نائب ناظم امتحانات حبیب اللہ کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ گریڈ 18 کے افسر ہونے کی وجہ سے 75 ہزار 54 روپے ماہانہ ہائوس رینٹ وصول کر رہے ہیں اور 48 ماہ میں انہوں نے 36 لاکھ 2 ہزار 592 روپے وصول کیے ہیں۔ 17 گریڈ کے اسسٹنٹ سیکریٹری امان اللہ 67 ہزار 627 روپے ماہانہ ہائوس رینٹ وصول کر رہے ہیں، جبکہ 48 ماہ میں انہیں بورڈ انتظامیہ کی جانب سے 32 لاکھ 46 ہزار 96 روپے ادا کیے گئے ہیں۔ اسی گریڈ میں ضیاء الحق نے بھی مذکورہ رقم وصول کی۔ جبکہ گریڈ 17 کے افسر راشد علی نے 53 ہزار 263 روپے ماہانہ ہائوس رینٹ الائونس وصول کیا۔ جبکہ ان کے ذمہ 48 ماہ میں 25 لاکھ 56 ہزار 624 روپے ہیں جو انہیں تنخواہوں میں ادا کیے گئے تھے۔ 17 گریڈ کے افسر جاوید احمد نے 50 ہزار 869 روپے ماہانہ ہائوس رینٹ الائونس وصول کیا، جبکہ 48 ماہ میں انہیں اس مد میں 24 لاکھ 41 ہزار 712 روپے کی ادائیگی کی گئی۔ گریڈ 16 کے افسر محمد زاہد نے 43 ہزار 351 روپے ماہانہ اور 48 ماہ میں 20 لاکھ 80 ہزار 848 روپے ادا کیے ہیں۔ گریڈ 14 کے ملازم مشرف خان نے ماہانہ 30 ہزار 387 روپے اور 48 اہ میں 14 لاکھ 58 ہزار 576 روپے وصول کیے ہیں۔ اس گریڈ میں خاتون شگفتہ اجمل نے 30 ہزار 387 روپے ماہانہ اور 48 ماہ میں 14 لاکھ 58 ہزار 576 روپے وصول کیے ہیں۔

14 گریڈ کے ملازم شکیل احمد نے 26 ہزار 733 روپے ماہانہ اور 48 ماہ میں 12 لاکھ 83 ہزار 184 روپے وصول کیے ہیں۔ اس گریڈ میں انیل احمد نے 27 ہزار 951 روپے ماہانہ اور 48 ماہ میں 13 لاکھ 41 ہزار 648 روپے وصول کیے۔ اسی طرح 11 گریڈ کی خاتون انیتا پروین نے 14 ہزار 889 روپے ماہانہ اور 48 ماہ میں 7 لاکھ 14 ہزار 672 روپے وصول کیے ہیں۔ گریڈ 11 کے ملازم عبدالغفور نے ماہانہ ہائوس رینٹ الائونس کی مد میں 24 ہزار 53 روپیاور 48 ماہ کے 7 لاکھ 14 ہزار 672 روپے وصول کیے۔ اسی گریڈ کی خاتون شازیہ نعمان نے بھی عبدالغفور کے مساوی رقم وصول کی۔

8 گریڈ کے ملازم زمان خان نے 32 ہزار 823 روپے ماہانہ اور 48 ماہ میں 15 لاکھ 85 ہزار 504 روپے ہائوس رینٹ الائونس کی مد میں وصول کیے۔ اسی گریڈ کے ملازم الیاس خان نے ماہانہ 31 ہزار 423 اور 48 ماہ میں 15 لاکھ 8 ہزار 304 روپے وصول کیے۔ اس طرح گریڈ 8 کے ملازم محمد شاہد خان نے 23 ہزار 723 روپے ماہانہ اور 48 ماہ میں 11 لاکھ 38 ہزار 704 روپے وصول کیے۔ گریڈ 7 کے ملازم سید مختار حیدر رضوی نے 11 ہزار 698 روپے ماہانہ اور 48 ماہ میں 9 لاکھ 45 ہزار 504 روپے وصول کیے۔ گریڈ 5 کے ملازم وزیر احمد نے 20 ہزار 657 روپے ماہانہ اور 48 ماہ میں 9 لاکھ 91 ہزار 536 روپے وصول کیے۔ گریڈ 3 کے ملازم سید بدر زیدی نے 20 ہزار 944 روپے ماہانہ اور 48 ماہ میں دس لاکھ 5 ہزار 312 روپے وصول کیے۔ گریڈ 2 کے ملازم محمد شکیل خان نے 14 ہزار 819 روپے ماہانہ اور 48 ماہ میں 7 لاکھ 11 ہزار 312 روپے وصول کیے۔

اسی طرح گریڈ ایک کے ملازمین نواز علی اور علی رضا نے بالترتیب 48 ماہ میں 4 لاکھ 69 ہزار 728 روپے ہائوس رینٹ الائونس کی مد میں وصول کیے ہیں۔

بورڈ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ برس میٹرک و انٹر بورڈ کا اسپیشل آڈٹ برائے سال 2021ء، 2022ء، 2023ء اور 2024ء کرایا گیا۔ مذکورہ آڈٹ کے دوران بھی انکشاف ہوا کہ افسران و ملازمین کو ہائوس رینٹ الائونس کی مد میں 2 کروڑ 71 لاکھ 92 ہزار روپے کی غیرقانونی ادائیگی کی گئی ہے۔

آڈیٹر جنرل نے کہا کہ مذکورہ معاملے کی بورڈ انتظامیہ کو جون 2025ء میں نشاندہی کی گئی۔ تاہم انتظامیہ نے کوئی جواب جمع نہیں کرایا۔ آڈٹ نے تمام افسران و ملازمین سے خطیر رقم کی ریکوری کی سفارش کی اور بورڈ انتظامیہ کو پابند کیا کہ مستقبل میں ایسی بے ضابطگیاں نہ ہوں ۔