فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبرپختونخوا میں نئی حکومت بنانے کیلیے صلاح مشورے ،جوڑتوڑ شروع

نمائندہ امت:
علی امین گنڈا پور کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد خیبرپختون کی نئی کابینہ کیلئے صلاح مشورے شروع ہو گئے ہیں۔

گزشتہ روز اسپیکر ہائوس میں منعقدہ اجلاس میں علی امین گنڈا پور کی جانب سے برطرف کیے جانے والے وزرا کی واپسی، عمران خان کی ہدایات کے مطابق کامران بنگش اور تیمور جھگڑا کو وزیر بنانے اور مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کو وزارت نہ دینے پر طویل مشاورت کی گئی۔ دوسری جانب اپوزیشن نے گورنر ہائوس میں ڈیرے ڈال دیئے ہیں اور لگ بھگ اٹھارہ پی ٹی آئی اراکین کے ساتھ رابطے شروع کر دیئے گئے ہیں۔ تاکہ پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دیا جا سکے اور نیا وزیراعلیٰ لانے کیلئے اپنے بندے کو بھی کامیاب کرانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔

ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ علی امین گنڈا پور گروپ، جو 32 اراکین پر مشتمل ہے، مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا لطف الرحمان کو وزیر اعلیٰ بنانے کیلئے تیار نہیں۔ جبکہ نئے نامزد وزیراعلیٰ سہیل آفریدی پر سول پاور ایکشن ایکٹ کے تحت فوج کی خیبرپختون میں تعیناتی واپس لینے کیلئے دبائو بڑھ گیا ہے۔ اگر نئے وزیراعلیٰ یہ قدم اٹھاتے ہیں تو خیبرپختون میں امن و امان کی خراب صورتحال کے سبب گورنر راج کا امکان بڑھ جائے گا۔ ذرائع کے بقول وزیراعلیٰ سہیل آفریدی تیمور جھگڑا کو مشیر خزانہ بنانے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، جس پر پی ٹی آئی میں خلیج مزید بڑھ سکتی ہے۔ جبکہ اکتالیس سے زیادہ او ایس ڈی افسران نے بھی اچھے عہدوں کیلئے دوڑ دھوپ شروع کر دی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ نامزد کرنے کے پیچھے مراد سعید کا ہاتھ بتایا جاتا ہے اور عمران خان چاہتے ہیں کہ مراد سعید پس پردہ خیبرپختون حکومت چلائیں۔ لیکن اس سے مقتدر حلقوں اور وفاقی اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے تصادم کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ دوسری جانب ذرائع کے مطابق خیبرپختون میں حزب اختلاف کی جماعتیں وزارت اعلیٰ کیلئے متفقہ امیدوار لانے میں فی الحال ناکام ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی خواہش ہے کہ اپنا امیدوار لایا جائے۔ جبکہ جے یو آئی بھی اپنا امیدوار لانے کیلئے متحرک ہے اور اپوزیشن جماعتوں کو متفق کرنے کے لیے سیاسی رہنماؤں نے کوششیں تیز کر دی ہیں۔

ذرائع کے مطابق اپوزیشن رہنما جے یو آئی کے اہم رہنماؤں سے رابطے میں ہیں۔ گزشتہ روز بھی اپوزیشن لیڈر نے گورنر اور مولانا عطاء الرحمان سے مشاورت کی تھی۔ اپوزیشن لیڈر کی خواہش ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں ایک ہی امیدوار کو نامزد کریں۔ ذرائع کے بقول اس وقت خیبرپختون کے نامزد وزیراعلی سہیل آفریدی کیلئے امن و امان کا قیام بڑا چیلنج قرار دیا جارہا ہے۔

قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے سہیل آفریدی کا اپنا آبائی ضلع بھی دہشت گردی سے متاثر ہے۔ امن و امان کے قیام کیلئے ان کی سنجیدہ کوشش اور اقدامات انتہائی ناگزیر ہوں گے۔ علاوہ ازیں سہیل آفریدی سے لوگوں کو امید ہے کہ وہ صوبہ میں جاری آٹا بحران اور مہنگائی جیسے ایشوز پر جلد قابو پا لیں گے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ان کے پاس ایک برس تک محکمہ تعمیرات و مواصلات کا قلمدان رہا ہے۔ تاہم اس ایک سال کے دوران سہیل آفریدی پر کسی قسم کی کرپشن کا الزام عائد نہیں ہوا۔ جبکہ بدعنوانی میں ملوث ٹھیکیداروں سمیت سرکاری ملازمین کیخلاف سخت کارروائی بھی کی گئی۔

سہیل آفریدی کیلئے صوبے میں انتظامی بحران قابو کرنے سمیت کابینہ کا انتخاب بھی بڑا امتحان ہوگا۔ علی امین گنڈا پور نے صرف ایک ہفتے قبل ہی پوری کابینہ میں ردوبدل کردیا تھا۔ تاہم اب ان کے استعفیٰ کے بعد کابینہ بھی تحلیل ہوجائے گی۔ سہیل آفریدی کے پاس اپنی کابینہ کے انتخاب کا بھی اختیار ہوگا۔ ادھر نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا آئینی طریقہ کار سامنے آگیا ہے۔ علی امین گنڈا پور کی جانب سے گورنر کو استعفیٰ ارسال کرتے ہی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق آئینی ضابطے کے تحت گورنر خیبرپختون وزیراعلیٰ کا استعفیٰ موصول ہونے کے بعد اڑتالیس گھنٹوں میں اس کی منظوری دیں گے۔ جبکہ گورنر فوری استعفیٰ بی منظور کرنے کے مجاز ہیں۔ استعفیٰ منظور ہونے کے ساتھ ہی صوبائی کابینہ تحلیل ہو جائے گی اور اس کے بعد پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا جائے گا۔ جس میں نیا وزیراعلیٰ نامزد کیا جائے گا۔ نامزدگی کی منظوری کے بعد اسمبلی کا اجلاس اسپیکر طلب کرے گا۔ جہاں امیدوار کو ووٹنگ کے ذریعے اکثریت ثابت کرنا ہوگی۔ خیال رہے کہ خیبرپختون اسمبلی میں کل 145 اراکین ہیں اور نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے کم از کم 73 اراکین کی حمایت ضروری ہے۔ موجودہ ایوان میں بظاہر تحریک انصاف کو 92 اراکین کی اکثریت حاصل ہے۔