فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھتہ خوری بڑھنے سے کراچی کے تاجر خوفزدہ

اقبال اعوان :
کراچی میں ایک بار پھر بھتہ خوری بڑھنے سے تاجر برادری میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔ سرکاری ادارے کے مطابق رواں سال شہر میں بھتہ خوری کے حوالے سے 98 شکایت موصول ہوچکی ہیں۔ تاہم تاجر رہنمائوں کا کہنا ہے کہ امسال 9 ماہ کے دوران ایسے واقعات کی تعداد سیکڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن پولیس پر اعتماد نہ ہونے کے سبب تمام واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ان کا کہنا تھا کہ تاجروں کے کاروبار، گھر اور اہل خانہ تک بات جارہی ہے۔ معاملہ صرف کیمرے لگانے سے حل نہیں ہوگا۔

ذرائع کے مطابق گینگ وار کے 7 گروپس کی جانب سے شہر بھر میں، بالخصوص اولڈ سٹی ایریا میں بھتہ خوری کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ دو تین سال قبل بھتہ خوری پر قابو پالیا گیا تھا۔ اس دوران بھی تاجر سراپا احتجاج بنے تھے۔ مگر رواں سال بھتہ خوری دوبارہ بڑھ گئی ہے۔ بھتہ خور گروپوں کے کمانڈر زیادہ تر بیرون ملک سے احکامات دیتے ہیں یا کالیں کرتے ہیں۔ کراچی میں موجود ان کے کارندے بھتے کی پرچیاں پستول کی گولی یا خول کے ساتھ بھیج کر دھمکاتے ہیں۔

سرکاری ادارے کے ذرائع کے بقول رواں سال 96 کیسز ریکارڈ ہوئے، جن کے مطابق ضلع سینٹرل سب سے آگے رہا کہ وہاں 37 شکایت ملیں۔ جبکہ دیگر اضلاع میں ایسٹ 15، ملیر 5، کورنگی 3، ویسٹ 20، سائوتھ 2، سٹی 12 کورنگی میں دو کیسز سامنے آئے۔ بھتہ خور گروپس زیادہ تر لیاری گینگ وار کے ہیں جن میں وضی اللہ لاکھو گروپ، تاجو گروپ، سکندر عرف سیکو گروپ، جیل میں موجود عذیر گروپ، احمد علی مگسی گروپ، ارشد پپو گروپ، ایاز زہری گروپ سمیت دیگر شامل ہیں۔

تاجر رہنما شرجیل گوپلانی جو ماضی میں بھتہ خوروں کے خلاف سرگرم رہے، ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے تاجر تنگ ہو کر کاروبار سمیٹ رہے ہیں کہ بھتہ خوری دوبارہ بڑھ گئی ہے۔ کے ایم سی ٹائون، ایف بی آر اور دیگر ادارے بھی ان کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ پولیس اور رینجرز کے افسران بار بار فون کر کے میٹنگ کر کے صورت حال پر قابو پانے کے حوالے سے بلا رہے ہیں۔

پولیس کے کرپٹ لوگوں کی وجہ سے تاجر شکایت درج نہیں کراتے کہ تاجروں کو مسئلہ ہوگا۔ سی ٹی ڈی والے مقدمہ ہونے کے بعد تفتیش کرتے ہیں۔ جدید آلات اور تربیت یافتہ افسران بھی ان کو بھتہ خوروں سے بچانے میں ناکام ہیں۔ تاجر ان بھتہ خوروں کے خلاف بیان دے یا پولیس میں جاکر مقدمہ کرانے کے لیے مدعی بن جائے، تو جان کا خطرہ ہے۔ بار بار وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آگاہ کیا کہ تاجر شہر میں پہلے ہی پریشان ہیں۔ ان پر رحم کریں کہ تاجر کاروبار منتقل کرنے لگے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ بیرون ممالک سے کالیں آرہی ہیں تو انٹرپول کا استعمال کر کے بڑے سرغنہ پکڑے جائیں۔

ایک تاجر رہنما کا کہنا تھا کہ تاجروں کے اہل خانہ، دکان، گھر کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ ڈکیتی مزاحمت پر تاجروں کے قتل، زخمی ہونے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ اب ایک بار پھر تاجروں کو تر نوالہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ادارے، پولیس، چیمبر آف کامرس والے بولتے ہیں کہ گھروں اور دکانوں، مارکیٹوں، بازاروں میں کیمرے لگائیں۔

تاجر رہنما عتیق میر نے بیان میں کہا کہ یہ سیریس مسئلہ ہے۔ کاروباری لوگ جہاں کاروبار انتہائی کم رہنے پر پریشان ہیں وہیں بھتہ خوری سے پریشان ہیں۔ بھتہ خور دھمکی کے طور پر گولیوں کے خول بھتے کی پرچی کے ساتھ بھیج رہے ہیں، ماضی میں کفن تک بھیجتے تھے۔ تاجر بھتے کی پرچی یا کال ملنے پر پولیس پر جلد اعتبار نہیں کرتے کہ معاملہ آئوٹ ہوا تو بھتہ خور ان کے گھروں، اہل خانہ کو نقصان دے سکتے ہیں۔