فوٹو سیکیورٹی ذرائع
فوٹو سیکیورٹی ذرائع

پاکستان کیخلاف بزدلانہ جارحیت افغان طالبان کے گلے پڑ گئی

امت رپورٹ :
پاکستان کے خلاف بزدلانہ جارحیت افغان طالبان کے گلے پڑ گئی۔ اس کے جواب میں پاکستان نے چن چن کر افغانستان کے مختلف حصوں میں کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش کے مختلف ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور ان دہشت گرد تنظیموں کا بیشتر انفرا اسٹرکچر تباہ کر دیا۔ دوسری جانب افغان وزیر خارجہ کی بھارت یاترا کے پیچھے بنایا گیا مذموم منصوبہ بھی بے نقاب ہو گیا ہے۔ خود ایک افغان صحافی نے بی جے پی اور طالبان کو ایک سکے کے دو رخ قرار دیا ہے۔

افغانستان کو پاکستان کی جانب سے دیئے گئے منہ توڑ جواب میں کس قدر جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا۔ اس کی تفصیل میڈیا میں آچکی ہے۔ لہٰذا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی جوابی کارروائی کے دوران افغان طالبان کی جانب سے کم از کم تین بار جنگ بندی کی منتیں کی گئیں، جو مسترد کر دی گئیں۔

افغان امور کو کور کرنے والے ایک درجن سے زائد صحافتی ذرائع نے بتایا ہے کہ کابل بمباری واقعہ کے بعد افغان طالبان پر اندرونی طور پر بہت زیادہ دبائو تھا کہ وہ جوابی کارروائی کریں۔ تاہم افغان طالبان اس کے نتائج سے خوف زدہ تھے۔ لیکن جب یہ اندرونی دبائو بڑھتا چلا گیا تو مجبوراً افغان طالبان نے جارحیت کا فیصلہ کیا اور پاکستان کی سرحدی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی فوری جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ کیونکہ تب تک پاکستان کی جانب سے بھرپور جوابی کارروائی کا آغاز ہو چکا تھا۔

اس کے بعد پاکستان نے جوابی کارروائی میں نہ صرف افغانستان کی بیس کے قریب چیک پوسٹوں پر قبضہ کیا۔ بلکہ دو سو سے زائد افغان طالبان کو ہلاک بھی کر دیا ۔ تباہ شدہ چیک پوسٹوں پر متعدد افغان طالبان نے ہتھیار بھی ڈال دیئے۔ پاکستان کی بھرپور جوابی کارروائی کا سلسلہ اتوار کی صبح تک جاری رہا۔

قطر اور سعودی عرب کی درخواست کا بہانہ بنا کر طالبان کو فوری جنگ بندی کا اعلان کیوں کرنا پڑا؟ اس سوال کا جواب بی بی سی پشتو کی اس رپورٹ سے بخوبی ہوتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان پر پاکستان کے فضائی حملوں نے ایک بار پھر طالبان حکومت کی عسکری سازوسامان اور جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت بڑی کوتاہیاں ظاہر کر دی ہیں۔ افغان حکومت کے پاس ریڈار سسٹم نہیں اور نہ ہی اس کے پاس طیاروں کا پتہ لگانے، نگرانی کرنے اور طیاروں کو مار گرانے کا نظام ہے۔ لہٰذا افغان طالبان کی حکومت براہ راست جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان نے طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھی افغانستان میں راکٹ فائر کیے تھے۔ لیکن دو ہزار اکیس میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان افغانستان میں دس سے زائد فضائی حملے کیے ہیں۔ جبکہ نو اکتوبر کی رات پہلی بار دارالحکومت کابل کو نشانہ بنایا گیا۔

اگرچہ افغانستان کی جارحیت کے جواب میں پاکستان کی طرف سے کی جانے والی بھرپور اور تباہ کن کارروائی کا سلسلہ اتوار کی صبح روک دیا گیا تھا۔ تاہم قابل اعتماد ذرائع نے بتایا کہ اب یہ طے شدہ پالیسی ہے کہ ٹی ٹی پی کی کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کا جواب پاکستان، افغانستان کے اندر دے گا۔ یہ پیغام واضح طور پر دیا جا چکا ہے اور اس سے خطے کے دوست ممالک کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حالیہ دہشت گرد حملے کی ذمے داری پہلے کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔ تاہم اس کے اگلے روز ہی وہ مکر گئی اور ایک کھوکھلا وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور غلطی سے اس کارروائی کی ذمے داری کو تسلیم کیا گیا تھا۔

بعدازاں اس کارروائی کی ذمے داری ایک غیر معروف دہشت گرد تنظیم نے قبول کر لی۔ ذرائع کے بقول کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان کے دو ٹوک پیغام کے بعد اس خوف سے اپنی دہشت گردانہ کارروائی کو ایک غیر معروف اور فرضی تنظیم پر ڈالا، کیونکہ اسے اس کارروائی کا پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر بھرپور ایکشن کا خوف تھا۔ چنانچہ افغان طالبان کے مشورے پر اس کارروائی کی ذمے داری سے انکار کیا گیا۔

دوسری جانب افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی بھارت یاترا کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ متقی کے دورہ بھارت کے دوران خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ انٹیلی جنس اداروں کے پاس ایسی انفارمیشن موجود ہے کہ متقی کے دورہ بھارت کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں اچانک اضافہ افغان حکومت اور انتہا پسند ہندو مودی سرکار کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا، تاکہ پاکستان کو اشتعال دلایا جا سکے۔ اور یہ کہ جواب میں پاکستان جو بھی ممکنہ کارروائی کرتا ہے، اسے وکٹم کارڈ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ جس کے بعد متقی نے بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف پریس کانفرنس کی۔ یہ پریس کانفرنس بھی اسی طے شدہ منصوبے کا حصہ تھی، جس کا اسکرپٹ اجیت دوول کی مشاورت سے تیار کیا گیا تھا۔

بعد ازاں مذموم منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی اور اسے کابل اور پکتیکا میں فضائی حملوں کے خلاف جوابی کارروائی قرار دیا گیا۔ تاہم افغان طالبان یہ بھول گئے کہ پاکستان نے کچھ عرصہ پہلے ہی نہ صرف اپنے سے دس گنا طاقتور بھارت کی فضائیہ کو ذلت آمیز شکست دی، بلکہ کنٹرول لائن پر بھارتی چوکیوں پر ایسی بے مثال گولہ باری کی کہ بھارتی فوجی جنگ بندی کا سفید پرچم لہراتے ہوئے اپنی چوکیاں اور ساتھیوں کی لاشیں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔

یہ مناظر ویڈیوز میں محفوظ ہیں اور کروڑوں لوگ اسے سوشل میڈیا پر دیکھ چکے ہیں۔ چنانچہ افغان طالبان کی بلا اشتعال فائرنگ کا جب پاکستان نے بھرپور جواب دینا شروع کیا تو بالکل بھارتیوں کی طرح افغان طالبان بھی اپنی تباہ شدہ چوکیوں اور ساتھیوں کی لاشوں کو چھوڑ کر ناصرف بھاگ نکلے، بلکہ جنگ بندی کی منتیں بھی کرنے لگے۔افغان طالبان کس طرح بھارت کی کٹھ پتلی بن کر اس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور بھارت کس طرح طالبان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے، اس پر خود افغانستان کے معروف صحافی بلال سروری بھی خاموش نہ رہ سکے۔

ایکس پر اپنی پوسٹ میں انہوں نے لکھا ’’طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کا بھارت کا دورہ علاقائی کشیدگی کے درمیان ہوا ہے۔ ہمیشہ کی طرح، نئی دہلی اس کشیدگی کو پاکستان کو الگ تھلگ کرنے اور اپنے علاقائی فائدہ کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

طالبان کو اس جال میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ بھارت ایمبولینسز تو دے رہا ہے، لیکن افغان شہریوں کے لیے وظائف، ویزے اور تجارت کے مواقع کہاں ہیں؟ علامتی امداد دیرپا تعلقات قائم نہیں کر سکتی‘‘۔

بلال سروری کے بقول متقی کی پریس بریفنگ بامیان کے بدھ کے مجسمے کی تصویر کے نیچے ہوئی، جو دو ہزار ایک میں طالبان کے ہاتھوں تباہ شدہ یادگار کی تھی۔ کتنی ستم ظریفی ہے، اور ان تضادات کی عکاسی ہے جو طالبان کی سفارت کاری اور اس کے ساتھ ہندوستان کی موقع پرستی دونوں کو واضح کرتی ہے۔ دراصل طالبان اور بی جے پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ایک زعفرانی اور دوسرے سفید لباس میں ہے۔

اس جھڑپ کے دوران افغان میڈیا اور ان کے سوشل میڈیا اکائونٹس نے جھوٹ بولنے میں گودی میڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اس پر افغان امور کے صحافی سمیع اللہ یوسف زئی نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’بظاہر چند سو افغان طالبان پاکستان کی سرحدی افواج کے ساتھ جھڑپوں میں مصروف ہیں۔ جبکہ باقی سوشل میڈیا پر بہادری سے پاکستان سے لڑ رہے ہیں۔ جو کچھ میں ان کے گروپس چیٹس اور سوشل میڈیا اکائونٹس پر دیکھ رہا ہوں، اس سے آدھا پاکستان تو ’’قبضہ‘‘ ہو چکا ہے۔