نمائندہ امت :
یوٹیوبر اور خود ساختہ مذہبی محقق انجینئر محمد علی مرزا اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے مذہبی موضوعات پر ہزاروں متنازعہ ویڈیوز اپ لوڈ کر چکے ہیں، جن میں وہ مختلف مکاتبِ فکر کے عقائد، تاریخی روایات اور احادیث پر اپنی سمجھ کے مطابق الٹی سیدھی تشریحات پیش کرتے رہے۔ حالانکہ انہیں عربی پر عبور حاصل نہیں، صرف اردو ترجموں کی مدد سے خود کو بڑے محقق باور کراتے اور ہر بات پر بخاری و مسلم جیسی حدیث کی معتبر ترین کتب کے حوالے دیتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ بخاری و مسلم کے نام پر وہ اکثر جھوٹ بولتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں مرزا کو توہینِ مذہب اور عوامی امن خراب کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ ان کی ایک ویڈیو میں رسول اقدس ﷺ کی شانِ اقدس میں نامناسب کلمات ادا کیے گئے اور صحابہ کرامؓ کے بارے میں بھی بے ادبی کے انداز میں گفتگو کی گئی۔ پولیس نے انہیں اندیشہ نقصِ امن (MPO) کے تحت حراست میں لیا اور بعد ازاں ان کے خلاف توہینِ رسالت اور الیکٹرونک کرائم ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ مرزا کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا باعث بنیں۔ ان ویڈیوز کے نتیجے میں فرقہ وارانہ نفرت اور انتشار میں اضافہ دیکھا گیا۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ مرزا جھوٹے یا غیر مستند تاریخی حوالوں کو استعمال کر کے صحابہ کرامؓ، فقہا اور ائمہ اور اولیائے کرام کے بارے میں عوام کے دلوں میں بدگمانی پیدا کرتے ہیں۔
مرزا کی ویڈیو میں تضادات، جھوٹ اور غلط بیانی کی بھرمار ہے۔ مستند علمائے کرام اس کی بار بار نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔ مرزا عموماً ان صحابہ کرامؓ کو نشانہ بناتے ہیں، جن کا ذکر مشاجرات صحابہ میں ملتا ہے۔ یعنی وہ صحابہ کرام جن کے باہمی اختلافات ہوئے اور بہت سے واقعات بھی رونما ہوئے۔ حالانکہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام کے یہ اختلافات ایک نازک موضوع ہے۔ اسے موضوع سخن بناتے ہوئے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دونوں جانب ایسے کبار صحابہ کرامؓ ہیں، جنہیں جیتے جی جنت کی بشارت دی گئی۔ مگر مرزا کی دریدہ دہنی سے یہ ہستیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
ذیل میں ہم نمونہ مشت از خروارے کے طور پر اس کی ایک ویڈیو پر تفصیلی گفتگو کرتے ہیں۔ جس میں مرزا نے نبی کریم ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی، جنت میں آپ ﷺ کے حواری، یکے از عشرہ مبشرہ، ایسے جلیل القدر صحابی جنہوں نے اسلام کے دفاع میں سب سے پہلے تلوار اٹھائی۔ یعنی سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم پر سنگین ترین الزامات عاید کیے اور ان کے ساتھ ان کے جلیل القدر فرزند سیدنا بن زبیر اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ پہلے قارئین وہ حدیث پڑھ لیں۔
امام بخاری نے مجاہد کے مال میں برکت کے عنوان سے یہ حدیث اپنی کتاب میں ذکر کی ہے:
حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جمل کی جنگ کے موقع پر جب زبیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تو مجھے بلایا میں ان کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے کہا بیٹے! آج کی لڑائی میں ظالم مارا جائے گا یا مظلوم، میں سمجھتا ہوں کہ آج میں مظلوم قتل کیا جاؤں گا اور مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے قرضوں کی ہے۔ کیا تمہیں بھی کچھ اندازہ ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد ہمارا کچھ مال بچ سکے گا؟ پھر انہوں نے کہا بیٹے! ہمارا مال فروخت کر کے اس سے قرض ادا کر دینا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی میرے لیے اور اس تہائی کے تیسرے حصہ کی وصیت میرے بچوں کے لیے کی، یعنی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بچوں کے لیے۔
انہوں نے فرمایا تھا کہ اس تہائی کے تین حصے کر لینا اور اگر قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے اموال میں سے کچھ بچ جائے تو اس کا ایک تہائی تمہارے بچوں کے لیے ہوگا۔ ہشام راوی نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بعض لڑکے زبیر رضی اللہ عنہ کے لڑکوں کے ہم عمر تھے۔ جیسے خبیب اور عباد۔ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے اس وقت نو لڑکے اور نو لڑکیاں تھیں۔ عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ پھر زبیر رضی اللہ عنہ مجھے اپنے قرض کے سلسلے میں وصیت کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ بیٹا! اگر قرض ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ تو میرے مالک و مولا سے اس میں مدد چاہنا۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی! میں ان کی بات نہ سمجھ سکا۔ میں نے پوچھا کہ بابا آپ کے مولا کون ہیں؟
انہوں نے فرمایا کہ اللہ پاک! عبداللہ نے بیان کیا قسم اللہ کی! قرض ادا کرنے میں جو بھی دشواری سامنے آئی تو میں نے اسی طرح دعا کی کہ اے زبیر کے مولا! ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرا دے اور ادائیگی کی صورت پیدا ہو جاتی تھی۔ چنانچہ جب زبیر رضی اللہ عنہ (اسی موقع پر) شہید ہو گئے تو انہوں نے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ ان کا ترکہ کچھ تو اراضی کی صورت میں تھا اور اسی میں غابہ کی زمین بھی شامل تھی۔ گیارہ مکانات مدینہ میں تھے، دو مکان بصرہ میں تھے، ایک مکان کوفہ میں تھا اور ایک مصر میں تھا۔
عبداللہ نے بیان کیا کہ ان پر جو اتنا سارا قرض (اس لیے) ہو گیا تھا اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ جب ان کے پاس کوئی شخص اپنا مال لے کر امانت رکھنے آتا تو آپ اسے کہتے کہ (امانت) نہیں، البتہ اس صورت میں رکھ سکتا ہوں کہ یہ میرے ذمے بطور قرض رہے۔ کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہو جانے کا بھی خوف ہے۔ زبیر رضی اللہ عنہ کسی علاقے کے امیر کبھی نہیں بنے تھے۔ نہ وہ خراج وصول کرنے پر کبھی مقرر ہوئے اور نہ کوئی دوسرا عہدہ انہوں نے قبول کیا، البتہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ جہادوں میں شرکت کی تھی۔
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب میں نے اس رقم کا حساب کیا جو ان پر قرض تھی تو اس کی تعداد بائیس لاکھ تھی۔ بیان کیا کہ پھر حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ملے تو دریافت فرمایا، بیٹے! میرے (دینی) بھائی پر کتنا قرض رہ گیا ہے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے چھپانا چاہا اور کہہ دیا کہ ایک لاکھ، اس پر حکیم رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! میں تو نہیں سمجھتا کہ تمہارے پاس موجود سرمایہ سے یہ قرض ادا ہو سکے گا۔
عبداللہ نے اب کہا: کہ قرض کی تعداد بائیس لاکھ ہوئی پھر آپ کی کیا رائے ہو گی؟ انہوں نے فرمایا: پھر تو یہ قرض تمہاری برداشت سے بھی باہر ہے۔ خیر اگر کوئی دشواری پیش آئے تو مجھ سے کہنا، عبداللہ نے بیان کیا کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے غابہ کی جائیداد ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدی تھی، لیکن عبداللہ نے وہ سولہ لاکھ میں بیچی۔ پھر انہوں نے اعلان کیا کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ پر جس کا قرض ہو وہ غابہ میں آکر ہم سے مل لے، چنانچہ عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ آئے، ان کا زبیر پر چار لاکھ روپیہ چاہیے تھا۔
انہوں نے تو یہی پیشکش کی کہ اگر تم چاہو تو میں یہ قرض چھوڑ سکتا ہوں، لیکن عبداللہ نے کہا کہ نہیں پھر انہوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں سارے قرض کی ادائیگی کے بعد لے لوں گا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس پر بھی یہی کہا کہ تاخیر کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ آخر انہوں نے کہا کہ پھر اس زمین میں میرے حصے کا قطعہ مقرر کر دو۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ اپنے قرض میں یہاں سے یہاں تک لے لیجئے۔
(راوی نے) بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ کی جائیداد اور مکانات وغیرہ بیچ کر ان کا قرض ادا کر دیا گیا اور سارے قرض کی ادائیگی ہو گئی۔ غابہ کی جائیداد میں ساڑھے چار حصے ابھی بک نہیں سکے تھے۔ اس لئے عبداللہ رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں (شام) تشریف لے گئے، وہاں عمرو بن عثمان، منذر بن زبیر اور ابن زمعہ بھی موجود تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا کہ غابہ کی جائیداد کی قیمت کتنی طے ہوئی، انہوں نے بتایا کہ ہر حصے کی قیمت ایک لاکھ طے پائی تھی۔
معاویہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اب باقی کتنے حصے رہ گئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ساڑھے چار حصے، اس پر منذر بن زبیر نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں لے لیتا ہوں، عمر و عثمان نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں لے لیتا ہوں، ابن زمعہ نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں لے لیتا ہوں، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اب کتنے حصے باقی بچے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ حصہ! معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر اسے میں ڈیڑھ لاکھ میں لے لیتا ہوں،
بیان کیا کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنا حصہ بعد میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو چھ لاکھ میں بیچ دیا۔ پھر جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ قرض کی ادائیگی کر چکے تو زبیر رضی اللہ عنہ کی اولاد نے کہا کہ اب ہماری میراث تقسیم کر دیجئے، لیکن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی تمہاری میراث اس وقت تک تقسیم نہیں کر سکتا، جب تک چار سال تک ایام حج میں اعلان نہ کرا لوں کہ جس شخص کا بھی زبیر رضی اللہ عنہ پر قرض ہو وہ ہمارے پاس آئے اور اپنا قرض لے جائے۔
راوی نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اب ہر سال ایام حج میں اس کا اعلان کرانا شروع کیا اور جب چار سال گزر گئے، تو عبداللہ نے ان کی میراث تقسیم کی۔ راوی نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ کی چار بیویاں تھیں اور عبداللہ نے (وصیت کے مطابق) تہائی حصہ بچی ہوئی رقم میں سے نکال لیا تھا، پھر بھی ہر بیوی کے حصے میں بارہ بارہ لاکھ کی رقم آئی اور کل جائیداد حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی پانچ کروڑ دو لاکھ ہوئی۔ (صحیح البخاری/ کتاب فرض الخمس/حدیث: 3129)
اس ویڈیو میں مرزا کا کہنا ہے:
’’آپ کو حیران کن بات بتائوں۔ بخاری شریف کھولیں۔ حضرت زبیر جب شہید ہوئے تو اربوں روپے کے مقروض تھے۔ لوگ ان کے پاس امانتیں رکھواتے اور وہ انہیں غریبوں میں بانٹ دیتے۔ (یعنی خیانت کا الزام) آگے مرزا کہتا ہے کہ بعد میں حضرت ابن زبیر نے بڑی مشکل سے وہ قرضہ اتارا۔ وہ بھی کیا اتارا ہے، بیت المال سے پیسہ گیا ہے۔ (یعنی صحابہ نے اربوں کا گھپلا کیا) انہوں نے حضرت معاویہ ریکوسٹ کی یار، یہ ایک کروڑ کی زمین ہے، آپ ایک ارب میں خرید لیں۔ تو حضرت معاویہ نے اپنی جیب سے تھوڑی دیئے، بیت المال سے پیسے دیئے۔ اس طرح پیسے اکٹھے کرکے انہوں نے اپنے باپ کا قرضہ اتارا ہے۔‘‘
بخاری کی اس بہت آسان سی حدیث تھی، جس کے مفہوم کو بگاڑتے ہوئے بلکہ بدلتے ہوئے، مرزا نے تین شکار کھیلے:
اول: سب سے پہلے سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت کو (بددیانتی کے) کٹہرے میں کھڑا کیا۔
دوم: پھر ان کے بیٹے اور عظیم صحابی، مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات کے آگے سوالیہ نشان لگایا۔
سوم: سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چھپے ہوئے الفاظ میں خائن بنا کر پیش کیا، جو ویسے ہی ان کے مستقل نشانے پر رہتے ہیں۔
واقعہ بالکل سادہ اور آسان تھا کہ سیدنا زبیر کو لوگ امانتیں دے جاتے تھے تو آپ ان سے کہتے کہ ’’یہ امانت نہیں، بطور قرض رکھ رہا ہوں‘‘۔
اس کا اصل اور پہلا فائدہ خود ان لوگوں کو ہوتا تھا، کیونکہ اگر امانت ضائع ہو جائے تو امین پر کوئی تاوان نہیں، نقصان اسی کا ہوتا ہے جس کی ملکیت ہوتی ہے۔ اب جب یہ رقم قرض کی شکل میں آگئی تو اس کے ضائع ہونے کی صورت میں نقصان سیدنا زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نقصان بن جاتا تھا۔ یعنی حقیقت میں یہ صورت ان لوگوں کے لیے نفع کی تھی جن کی امانتیں تھیں۔ مزید یہ کہ قرض قرار پانے کے بعد وہ رقم سیدنا زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملکیت ہو گئی تھی، لہٰذا وہ جس طرح چاہیں اسے استعمال کریں، اس میں کوئی گناہ نہیں اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔ لیکن محمد علی مرزا نے اسے لوگوں کی امانتیں استعمال کرنے کے مترادف قرار دیا۔
جب سیدنا زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے تو انہوں نے اپنے بیٹے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وصیت فرمائی کہ ’’یہ تمام قرض اتار دینا‘‘۔ چنانچہ انہوں نے ان کی زمین بیچ کر تمام قرض ادا کر دیا۔ یہ سمجھنے کے لیے انتہائی آسان اور غیر پیچیدہ بات تھی، مگر اسے مرزا نے اپنے مقصد کے لیے الجھا دیا۔ حدیث کے پورے متن میں واضح ہے کہ قرض اتارنے کے بعد بھی زمین کی اچھی خاصی مقدار باقی رہی، یعنی قرض کم اور زمین بہت زیادہ تھی۔ یعنی قرض بائیس لاکھ اور زمین کی قیمت 5 کروڑ سے بھی زائد۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد کی زمین کا کچھ حصہ بیچ کر تمام قرض ادا کر دیا اور باقی زمین بھی بیچ دی، جس کا ایک قلیل حصہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خریدا۔
بس یہ ایک سادہ سا لین دین کا معاملہ تھا، جو بطورِ واقعہ حدیث میں بیان ہوا۔ لیکن مرزا نے اپنی چرب زبانی سے، بلکہ کہنا چاہیے کہ بددیانتی سے اسے بالکل بدل کر پیش کیا۔
پہلا جھوٹ یہ بولا کہ: لوگوں کی امانتیں بطورِ خیرات لوگوں میں بانٹ دیں۔ دوسرا جھوٹ یہ بولا کہ اربوں روپے کا قرض تھا اور زمین محض کروڑوں کی تھی۔ تیسرا جھوٹ یہ کہ ایک کروڑ کی زمین ایک ارب کے عوض بیت المال کے مال سے خریدی گئی، یعنی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بدعنوان ظاہر کیا۔
یہ واقعہ تو صرف ایک مثال ہے کہ مرزا کا بنیادی مقصد لوگوں کو اصحابِ رسولؓ سے برگشتہ اور بدگمان کرنا ہے۔ انہوں نے یہ کام خوب کیا اور اس کے نتائج ہم روز دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے اصحابِ رسولؓ کو عام افراد نہیں بلکہ عام لوگوں سے بھی نچلے درجے کا گروہ بنا کر پیش کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے پیروکار، جنہیں وہ اپنے ’’اسٹوڈنٹس‘‘ کہتے ہیں، اب صحابہ کرامؓ کے بارے میں زبان کھولنا آسان سمجھتے ہیں۔
جبکہ مسلمانوں کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ: انبیائے کرام کے بعد اصحابِ رسولؓ بہترین مخلوق ہیں اور آج کے ان خودساختہ دانشوروں کو ان ہستیوں پر اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ ایسا نہیں کہ ان سے غلطی نہیں ہوتی تھی، لیکن ہمارا منصب یہ نہیں کہ ہم ان کی غلطیوں کا جھنڈا بلند کریں۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ اگر ان کی کوئی لغزش سامنے آئے تو ہم خاموش رہیں اور ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کر دیں۔ اس لیے کہ وہ رسولِ اکرم ﷺ کے وہ ساتھی تھے جن سے آپ ﷺ نے محبت کی اور حق تعالیٰ نے انہیں رضی اللہ عنہم کی سند عطا فرمائی۔
یہ بھی واضح رہے کہ مرزا اور ان کے پیروکار شور مچاتے ہیں کہ رضی اللہ عنہم کی سند صرف صلحِ حدیبیہ سے پہلے والے اصحاب کے لیے ہے۔ تو اب اس حدیث میں تو سیدنا زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بھی انہوں نے خیانت کا الزام لگا دیا۔
کیا اب اس پر بھی وہ یہی عذر پیش کریں گے؟
یہ ایک مثال ہے کہ اہل علم کو مرزا سے اختلاف کی اصل وجوہات کیا ہیں۔ مرزا کی علمی غلطیاں بلکہ خیانتیں بے شمار ہیں اور زبان کی لغزشوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ انہی زبان درازیوں کے سبب موصوف آج جیل میں ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos