فائل فوٹو
فائل فوٹو

مفت عمرے کی آڑ میں گداگری کرانے والا نیٹ ورک بے نقاب

عمران خان :
مفت عمرہ کرانے کا لالچ دے کر پاکستانی خواتین سے سعودی عرب میں گداگری کرانے والے گروہ کے اہم رکن کی گرفتاری کے بعد سنسنی خیز انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔

اس نیٹ ورک کے چنگل میں پھنسنے والی ماہر نفسیات و سماجی کارکن سلمیٰ بی بی سے ’’امت‘‘ نے رابطہ کیا تو متاثرہ خاتون نے بتایا کہ وہ ایک چھوٹے گاؤں سے تعلق رکھتی ہے، جہاں غربت، بے روزگاری اور معاشی مایوسی کی فضا عام تھی۔ ایک دن ایک شخص نے اسے بتایا کہ وہ مفت عمرہ پیکج کے تحت اسے سعودی عرب بھیجیں گے، وہاں اس کے رہنے اور کام کرنے کا بندوبست ہے۔ صرف کچھ ابتدائی لاگت فراہم کرنی ہوگی۔ سلمیٰ بی بی نے فیصلہ کیا کہ یہ اس کا مقدر بدلنے کا موقع ہے۔ اور وہ اس جھانسے کو قبول کر بیٹھی۔ مگر جب سعودی عرب پہنچی، تو اس کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا اور اسے جبراً بھیک مانگنے پر مجبور کیا۔ سلمیٰ بی بی کی کہانی ایک ایسی مثال ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کتنا بے رحم دھندا ہے۔

’’امت‘‘ کو موصول اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے نے حالیہ دنوں ایک بڑی کارروائی کے دوران ایک بین الاقوامی انسانی اسمگلنگ گروہ کے اہم رکن محمد شریف کو گرفتار کیا ہے، جو پاکستانی خواتین کو مفت عمرہ پیکج اور روزگار کے جھانسے میں سعودی عرب بھیج کر انہیں بھیک مانگنے کے لیے مجبور کرتا تھا۔ ایف آئی اے کے مطابق، یہ گرفتاری فیصل آباد ایئرپورٹ پر اْس وقت عمل میں آئی جب ملزم سعودی عرب سے واپس آیا۔ ایف آئی اے کا مؤقف ہے کہ ملزم کئی ماہ سے نگرانی میں تھا اور مختلف اطلاعات ملی تھیں کہ اس گروہ نے دیہی اور پسماندہ علاقوں سے متاثر خواتین کو فریب دے کر لوٹا ہے۔ گروہ کے دیگر دو اہم ارکان ظہور احمد اور محمد غفور پہلے ہی ایف آئی اے کے شکنجے میں آ چکے تھے۔

ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ گروہ انتہائی منظم انداز سے کام کرتا رہا ہے۔ مقامی ایجنٹس چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں خواتین کو بھرتی کرتے، ان سے سفری اور اسپانسرشپ فیس وصول کرتے اور پھر سعودی عرب پہنچنے پر ان کے پاسپورٹ ضبط کر کے انہیں زیر نگرانی رکھ کر بھیک منگواتے تھے۔

یہ کارروائی انسانی اسمگلنگ اور بین الاقوامی نیٹ ورکس کے خلاف جاری مہم کا ایک حصہ ہے۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ اس نے انٹرپول اور سعودی حکام کے تعاون سے باقی نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کا عزم کیا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے پاس بس اینٹی ہیومن اسمگلنگ اینڈ ٹریفکنگ سرکِل (AHTC) ہیں جو تمام صوبوں میں فعال ہیں۔ یہ نیٹ ورک انسانی اسمگلنگ اور ٹریفکنگ کیسز کی تحقیقات کو مربوط کرنے کا کام کرتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2023ء کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ تقریباً 781 افسران انسانی اسمگلنگ اور ٹریفکنگ تحقیقات کیلئے ملک بھر میں تعینات کیے گئے تھے۔ ایف آئی اے نے اس سال ریڈ بک 2025ء جاری کی ہے، جس میں 137 افراد کو سب سے زیادہ مطلوب انسانی اسمگلرز اور ٹریفکروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے 13 ملزمان بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے اس نوع کی جرائم کے مرتکب افراد کی جائیداد ضبط کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے اور اس مقصد کے لیے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء کا سہارا لیا جارہا ہے۔

ایک واقعہ کے مطابق ایف آئی اے نے ایسے ملزمان کی جائیداد ضبط کرنے کی کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ تاہم غیر سرکاری رپورٹس اور اخباری تجزیے یہ بتاتے ہیں کہ رپورٹ کیے گئے کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک تجزیے کے مطابق، سندھ میں 2020ء میں صرف 5 ٹریفکنگ کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جو 2024ء تک بڑھ کر 434 کیسز تک پہنچ گئے۔ مجموعی طور پر 2020ء تا 2022ء کے دوران ایف آئی اے نے تقریباً 1,300 کیسز انسانی اسمگلنگ کے درج کیے تھے۔

اِن کیسوں میں تقریباً 7,000 متاثرین ملوث بتائے گئے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر جنوبی ایشیا میں ٹریفکنگ اور اسمگلنگ کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان نے بھی اس کے درمیان مرکزی مقام حاصل کیا ہے۔ ان اعداد و شمار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانی اسمگلنگ ایک سنگین اور پھیلتا ہوا مسئلہ ہے جو صرف ایک کاروائی سے حل نہیں ہو سکتا، بلکہ مستقل، مربوط اور بین الاقوامی سطح پر اقدامات درکار ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس تازہ کارروائی نے یہ ثابت کیا کہ ایف آئی اے کے پاس معلوماتی خفیہ نیٹ ورک اور انٹیلی جنس صلاحیت موجود ہے جو ایسے گروہوں کا سراغ لگا سکتی ہے۔ ایسے ملزمان کا پکڑا جانا ایک اہم کامیابی ہے۔ انسانی ٹریفکنگ کے ملزمان کی معاشی طاقت کو توڑنے کے لیے ایف آئی اے نے جائیداد ضبط کرنے کا راستہ اپنایا ہے۔ اگر یہ اقدام مؤثر انداز میں نافذ ہو، تو وہ گروہوں کے مالی استحکام کو کم کرسکتا ہے۔

سب سے زیادہ مطلوب ٹریفکرز کی فہرست شائع کرنا اور ملک گیر علم میں لانا ایک جارحانہ حکمت عملی ہے، جس سے ملزمان کے نقل مکانی کے راستے محدود ہوں گے اور عوامی شعور بڑھے گا۔ ایف آئی اے کا اینٹی ہیومن اسمگلنگ سیل ایک مخصوص ادارہ ہے جس کی ذمہ داری تحقیقات، تعاون بین الاقوامی اداروں سے اور نیٹ ورک سازی ہے۔ پاکستان میں UNODC، IOM، ILO اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر انسانی ٹریفکنگ کے خلاف مہمات چلائی گئی ہیں تاکہ شعور بیدار کیا جائے اور متاثرین کی واپسی کو ممکن بنایا جائے۔ ایف آئی اے حکام نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ ملزمان کے خلاف عدالتوں میں کی جانے والی پیش رفت کو تیز کیا جائے گا اور اعلی وکلا کو تعینات کیا جائے گا تاکہ کیسز میں دیر نہ ہو۔

ذرائع کے مطابق بہت سے متاثرین بااثر ملزمان کے خوف خوف، معاشرتی دباؤ یا لا علمی کی وجہ سے شکایات درج نہیں کر پاتے۔ اس باعث حقیقی کیسز مکمل اعداد میں سامنے نہیں آتے۔ یہ گروہ اکثر صوبوں، سرحدی علاقوں اور بین الاقوامی ممالک سے منسلک رہتے ہیں اور ان کا کنٹرول مشکل ہوتا ہے۔ ایک ملزم کی گرفتاری کے بعد اس گروہ یا کیس سے جڑے دیگر ملزمان کی گرفتاریاں زیادہ تر کیسوں میں ہو کہ نہیں ہوتیں جس سے کیس کمزور ہو جاتے ہیں اور گرفتار ملزمان کو بھی ریلیف مل جاتا ہے۔ اسی طرح مقدمات عموماً طویل عرصے تک عدالتی پیچیدگیوں میں پھنس جاتے ہیں، ثبوت جمع کرنا اور متاثرین کی آواز تسلیم کروانا آسان نہیں ہوتا۔

ذرائع کے مطابق اگرچہ ایف آئی اے نے ملازمین مقرر کیے ہیں، مگر ان کی تربیت، ڈیجیٹل انٹیلی جنس اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال محدود ہے۔ خاص کر دور دراز علاقوں میں گروہ نے مقامی ایجنٹس کو چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں استعمال کرنا شروع کیا، جو ایف آئی اے کی رسائی سے باہر ہو سکتے ہیں۔ متاثرین کو واپس لانے اور ان کی بحالی کا نظام، رہائش، طبی اور نفسیاتی معاونت کا تسلسل اکثر کمزور رہتا ہے۔