نواز طاہر :
افغان وزیر خارجہ امیر متقی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی حصہ قرار دینے کے بیان پر کشمیری رہنمائوں نے شدید مذمت اور ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کشمیری رہنما اس بیان کو منظم سازش کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس بیان سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اور یہ کہ ایسے بیانات کو افغان شہری بھی تسلیم نہیں کرتے اور وہ اس کے پیچھے چھپی سوچ اور سازش کو سمجھتے ہیں۔
اس حوالے سے کل جماعتی حریت کانفرنس کے کنوینیر غلام محمد صفی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’کشمیری تو یہ توقع کر رہے تھے کہ مولوی امیر متقی بھارت جا کر ہمارے حق میں بات کریں گے۔ لیکن انہوں نے بھارت کے نکتہ نظر کو آگے بڑھایا۔ یہ غیر متوقع عمل کشمیریوں، پاکستان اور افغان عوام کیلئے حیران کن، الارمنگ اور آنکھیں کھولنے کیلئے تو کافی ہے۔ لیکن اس سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں غلام محد صفی نے کہا ’’افغان وزیرخارجہ کے بیان سے ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ بلکہ الٹا یہ فائدہ پہنچا کہ ہماری آنکھیں کھل گئی ہیں اور ہمیں اپنے دوستوں کی پہچان ہوگئی ہے۔ ورنہ معلوم نہیں ایسے افراد کس وقت پیٹھ میں چھرا گھونپتے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مولوی امیر متقی کے بیان کو افغان عوام کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ بلکہ اس بیان سے عام افغان کے جذبات اور مفادات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔ افغان شہری جانتے ہیں کہ اس وقت ان پر کون سا مخصوص ذہن رکھنے والا دھڑا قابض ہے۔ عام افغانی پاکستان اور کشمیریوں کا ہمنوا ہے اور پاکستان اور کشمیریوں کی قربانیوں کو سمجھتا ہے‘‘۔
کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے سربراہ الطاف وانی کا کہنا ہے کہ افغان وزیر خارجہ کا بیان نہ صرف کشمیریوں، بلکہ عالمی سطح پر حق کی جدوجہد کرنے والوں کو دبانے اور ان کے موقف کی نفی کرنے کی بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ کی عالمی سازش ہے۔ یہ بیان تو خود افغانوں کے مفاد اور افغانستان کی سا لمیت کے خلاف ہے۔ جسے عام افغان سپورٹ نہیں کرتا۔ بھارت کے دورہ کے دوران افغان وزیر خارجہ کا بیان غیر متوقع اور حیران کن ہے اور اس سے خود افغانستان کے شہری بھی ششدر رہ گئے ہیں۔ لیکن وہاں چونکہ ایک مخصوص ذہنیت رکھنے والے گروپ کے جبر کی وجہ سے کسی کو بولنے کی آزادی نہیں۔ ورنہ اس وقت لاکھوں افغان شہری اس بیان پر سڑکوں پر نکل کر اپنے وزیر خارجہ کیخلاف مظاہرے کر رہے ہوتے۔
افغان وزیرخارجہ کا بھارتی سرزمین پر بیٹھ کر کشمیریوں کے جائز موقف کے خلاف بیان دینا غیر اخلاقی ہے اور اس موقف اور سوچ کی نفی ہے جس کی افغانستان کے شہری سپورٹ کرتے رہے ہیں۔ اس بیان کے خلاف عام افغان بول نہیں سکتے۔ افغانستان کو ماضی میں جو بھی کامیابی ملی، اس میں کشمیریوں اور پاکستان کی قربانیاں شامل ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں الطاف وانی کا کہنا تھا ’’افغان عوام پر ایک خاص طبقہ غالب ہے۔ جو افغان عوام کی جدوجہد اور خود مختاری کا مخالف ہے۔
ماضی میں بھارت افغانستان کے بجائے افغانوں کے مفادات کے مخالفین کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور انہیں سپورٹ کرتا رہا ہے اور اب خود افغان وزیر خارجہ افغانستان کے دشمن کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہ بیان خطے ہی نہیں، بلکہ عالمی امن کیلئے بھی خطرناک ہے اور صاف ظاہر کہ یہ بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کے گٹھ جوڑ کی عالمی سازش کا حصہ ہے۔ جس سے عام افغانی کو بھی بری طرح ٹھیس پہنچی ہے۔ اگر افغانستان میں اظہار رائے کی ذرا سی بھی آزادی ہوتی تو اس وقت افغان شہری پورے ملک میں کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ اپنے وزیرخارجہ کے خلاف سڑکوں پر نظر آرہے ہوتے‘‘۔
دریں اثنا تنظیمات اہلسنت پاکستان نے افغانستان کا بھارت سے دفاعی معاہدہ ’’امت‘‘ مسلمہ سے غداری قرار دیا ہے۔ ان کی نمائندگی کرتے ہوئے چیئرمین وفاق المدارس رضویہ مفتی کریم خان کا کہنا ہے کہ پندرہ سو سالہ عید میلادالنبی پر بھارتی مسلمانوں نے ایکس پر ’مجھے محمد سے پیار ہے‘ کا ٹرینڈ چلایا تو آر ایس ایس کی حکومت نے مفتی توقیر کو گرفتار کر لیا۔ بھارت کشمیریوں ہی نہیں، بلکہ تمام مسلمانوں اور اسلام کا دشمن ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos