فائل فوٹو
فائل فوٹو

کے پی میں وزارتوں کیلیے وزیر اعلیٰ ہائوس میں ڈیرے

نمائندہ امت :
صوبہ خیبرپختون میں وزیراعلیٰ کے انتخاب اور حلف کا امتحان ختم ہونے کے بعد اب کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔ من پسند وزارتوں کیلئے سابق وزرا، مشیر اور معاونین سمیت خواہشمند امیدواروں نے وزیراعلیٰ ہائوس میں ڈال دیئے ہیں اور نو منتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے ساتھ تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر مسلسل شیئر کی جارہی ہیں۔

ذرائع کے بقول سہیل آفریدی کابینہ میں پرانے اور نئے چہرے دونوں کی شمولیت کے خواہشمند ہیں۔ تاہم بانی پارٹی سے مشاورت کے بعد ہی کابینہ کا اعلان کیا جائے گا۔ دوسری جانب صوبے میں نئی کابینہ کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ایک مرتبہ پھر بیوروکریسی میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبے میں سیکرٹرییز، ڈپٹی سیکریٹریز، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، ڈی آئی جیز اور ڈی پی اوز سمیت اعلیٰ سطح کے افسران کے تبادلے متوقع ہیں۔

پہلے مرحلے میں اہم محکموں کے سیکرٹرییز اور ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں باقی افسران کی تعیناتی اور تبادلے عمل میں لائے جانے کا امکان ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ صوبے کی پالیسیوں اور گورننس پر براہ راست اثر انداز ہوگی۔ دوسری جانب خیبرپختون کابینہ میں شامل وزرا، مشیر اور معاونین اپنی کرسی بچانے کیلئے سرگرم ہو گئے ہیں۔ جبکہ ذرائع کے بقول کابینہ کے ممبران کے ساتھ ساتھ حکومت سے باہر بیٹھے رہنمائوں نے بھی کوششیں شروع کر دی ہیں اور پارٹی قیادت و رہنمائوں کے ذریعے خود کو کابینہ میں شامل کرنے کیلئے لابنگ کی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ صوبے میں مسلسل سیاسی بحران کے باعث انتظامی امور پہلے ہی ٹھپ ہیں۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے استعفیٰ دیئے جانے کے بعد سول سیکریٹریٹ سمیت تمام سرکاری دفاتر میں امور بری طرح متاثر ہیں اور صوبائی وزرا، مشیر و معاونین کے روز مرہ کے اجلاس اور تقاریب بھی منسوخ کر دی گئی ہیں۔ جبکہ کئی اہم امور سے متعلق مشاورت بھی رک گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق سرکاری دفاتر سے عوامی نمائندے غائب ہو گئے تھے۔ جس کی وجہ سے سائلین بھی دفاتر نہیں آرہے تھے۔ اسی طرح سیاسی غیر یقینی کی صورتحال سے باخبر رہنے کیلئے سرکاری ملازمین اور افسران نے بھی کام چھوڑ کر خبروں پر ہی توجہ مرکوز کر دی تھی۔ ذرائع کے بقول سہیل آفریدی کی جانب سے وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد صوبے میں کام کسی حد تک شروع ہو گئے ہیں۔ تاہم پشاور سمیت قبائلی اضلاع میں امن و امان کی خراب صورتحال نئے وزیراعلیٰ کیلئے چیلنج قرار دی جارہی ہے۔ کیونکہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی تحریک سے بھی بڑھ کر صوبے کو اس وقت امن کی ضرورت ہے اور صوبے کے عوام اسی صورت نئے وزیراعلیٰ کے ساتھ کسی بھی تحریک کا حصہ بنیں گے جب وہ پہلے امن قائم کریں اور عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنائیں۔

صوبے میں اس وقت ڈینگی بھی شدت اختیار کر چکا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ ہر ضلع میں ڈینگی سے متاثر ہیں۔ نومنتخب وزیراعلیٰ کو اس حوالے سے بھی ہنگامی اقدامات اٹھانا ہوںگے۔ تاکہ صحت کے تمام مسائل حل ہوں۔ اسی طرح سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بھی وبائی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں اور محکمہ صحت کے اقدامات کو عوا م نے ناکافی قرار دیا ہے۔ جس پر بھی وزیراعلیٰ کو نوٹس لینا ہو گا۔