نایاب علی پاکستانی ٹرانس جینڈر ہیں

اقوام متحدہ کیلئے شارٹ لسٹ پاکستانی ٹرانس جینڈر نایاب علی کون ہیں؟

اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں سے متعلق خصوصی رودادکار یا اسپیشل رپپورٹر آن ہیومن رائٹس ڈیفندرز کے عہدے پر تقرری کیلئے ایک پاکستانی ٹرانس جینڈر نایاب علی کو شارٹ لسٹ کیا ہے۔ سابق سینیٹر مشتاق احمد اس "انتہائی اہم اور حساس عہدے” پر پاکستانی سے کسی خاتون کے بجائے ایک ٹرانس جینڈر کو نامزد کرنے پر تشویش ظاہر کی ہے۔

پاکستان میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بطور محمد ارسلان پیدا ہونے والے ٹرانس جینڈر نایاب علی کون ہیں اور کیسے وہ اس عہدے کیلئے نامزدگی تک پہنچے۔

سابق سینیٹر مشتاق احمد نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا کہ "اقوامِ متحدہ کے انتہائی اہم اور حساس عہدے (Special rapporteur on the situation of human rights defenders)پر ٹرانسجنڈر نایاب علی (محمد ارسلان) جیسی متنازع شخصیت کا نامزد ہونا قابلِ تشویش ہے۔ نایاب علی ایک self proclaimed ٹرانسجنڈر عورت ہیں اور پیدائشی طور پر ایک مرد ہیں، اس کا اعتراف انہوں نے خود فیڈرل شریعت کورٹ میں دوران سماعت کیا تھا۔لہٰذا یہ پاکستانی خواتین کی حق تلفی بھی ہے اور اس اہم منصب پرایک جانبدار، متنازعہ فرد کی تعیناتی بھی،اس تعیناتی کے نتیجے میں خطے میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کے مسائل بڑھنے کا اندیشہ ہے۔اس طرح کے اہم اور سٹرٹیجک تعیناتیوں کو تہذیبی یلغار کا ذریعہ نہ بنایا جائے،لہذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ذمہ دار ادارے فوری طور پر اس بات کا نوٹس لیں اور انکی جگہ کسی موضوع شخصیت کو نامزد کیا جائے۔”

سابق سینیٹر نایاب علی کی ایک ٹوئیٹ پر ردعمل ظاہر کر رہے تھے جس میں محمد ارسلان عرف نایاب نے بتایا تھا کہ انہیں اقوام متحدہ کے اسپیشل ریپورٹر کے عہدے کیلئے شارٹ لسٹ کر لیا گیا ہے۔

عہدے کیلئے دیگر پاکستانی امیدوار

واضح رہے کہ شارٹ لسٹ ہونے کا مطلب اس عہدے پر تقرری نہیں تاہم یہ تقرری کے کافی قریب ہے۔ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسی پوزیشن کیلئے ایران، بھارت، اردن اور دیگر ممالک سے بھی خواتین اور مرد امیدوار ہیں۔ تاہم نایاب علی اس فہرست میں واحد ٹرانس جینڈر ہیں۔ پاکستان سے دو خواتین آمنہ مسعود اور آمنہ نذیر اور دو مرد عثمان نذیر اور آصف سردار بھی اسی عہدے کیلئے امیدوار ہیں۔

ان میں سے بیشتر افراد مشتاق احمد کے ساتھ پاکستان میں انسانی حقوق کی جدوجہد میں شریک رہے ہیں۔

اسپیشل رپپورٹر آن ہیومن رائٹس ڈیفندرز کیا ہے

فرانسیسی لفظ rapporteur کا اردو میں قریب ترین ترجمہ روداد کار بنتا ہے۔ یعنی وہ شخص جو کسی معاملے پر مکمل روداد فراہم کرے۔

یہ ایک خصوصی بین الاقوامی عہدہ ہے جواقوامِ متحدہ انسانی حقوق کونسل کی طرف سے قائم کیا گیا ہے، تاکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے دفاع کرنے والوں کے حالات پر نظر رکھی جائے، ان کی حفاظت کو فروغ دیا جائے، اور حکومتوں کو اس ضمن میں مشورے دیے جائیں۔

آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی ماری لالور Mary Lawlor مئی 2020 سے اس عہدے پر کام کر رہی ہیں تاہم 2026 میں ان کی مدت ختم ہو جائے گی۔

نایاب علی کون ہیں اور آئرلینڈ سے ان کا تعلق کیا ہے

نایاب علی یا مشتاق احمد کے بقول محمد ارسلان پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں پیدا ہوئے۔ آٹھویں جماعت میں انہیں گھر سے نکال دیا گیا۔ وہ اپنےگرو کے پاس چلے گئے۔ تاہم تعلیم جاری رکھی اور پنجاب یونیورسٹی سے باٹنی میں بی اے اور پرسٹن یونیورسٹی اسلام آباد سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ نایاب علی نے 2018 میں اوکاڑہ کی قومی اسمبلی کی نشست کیلئے الیکشن بھی لڑا اور ایک ہزار ووٹ لیے۔

2024 کے الیکشن میں بھی نایاب علی کی جنس کا مسئلہ کھڑا ہوا جب ان کیخلاف معروف خواجہ سرا الماس بوبی نےفیڈرل شریعت کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ الماس بوبی کا کہنا تھا کہ نایاب علی اگر اپنے اصل نام ارسلان کے ساتھ الیکشن لڑے تو انہیں اعتراض نہیں لیکن وہ خواجہ سرا کی شناخت استعمال کر رہے ہیں۔

ںایاب علی پہلے بھی اقوام متحدہ کیلئے بطور کنسلٹنٹ کام کر چکے ہیں۔ فیس بک پر 2020 میں یواین ڈی پی پاکستان نے انہیں پاکستان کے نمایاں ترین ٹرانس جینڈر افراد میں سے ایک قرار دیا۔

سال 2020 میں ہی انہیں آئرلینڈ میں ہم جنس پرستوں کی تنظیم نیشنل ایل جی بی ٹی فیڈریشن آف آئرلینڈ نے گالا انٹرنیشنل ایکٹویسٹ ایوارڈ سے نوازا۔ اسی برس انہیں جرمنی سے بھی ایک اعزاز ملا۔

خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر میں فرق

برصغیر میں روایتی طور پر خواجہ سرا کا اصطلاح ان لوگوں کیلئے استعمال ہوتی ہے جو پیدائشی طور پر مخنث ہوتے ہیں لیکن پیدائش کے وقت ہی ان کی جنس واضح نہیں ہوتی۔ ماضی میں ایسے بچوں کو ان کی باقی جسمانی علامات کی بنیاد پر مرد یا عورت شمار کیا جاتا رہا ہے۔

تاہم ٹرانس جینڈر کا معاملہ مختلف ہے۔ ٹرانس جینڈر وہ لوگ ہیں جو پیدائشی طور پر مکمل مرد یا عورت ہیں لیکن بعد میں وہ اپنی مرضی سے جنس مخالف ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ احساس کی بنیاد پر ہوتا ہے نہ کہ جسمانی شناخت کی بنیاد پر۔ یعنی پیدائشی طور پر مرد کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اندر "عورت کی روح” ہے۔ کئی ٹرانس جینڈر لوگ آپریشن کے ذریعے اپنی جسمانی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بقول ان کے ان کی جسمانی اور ذہنی شناخت ایک ہو جائے۔

یہی وہ فرق ہے جس کی بنا پر ٹرانس جینڈر افراد سے متعلق قانون سازی پر اعتراض کیا جاتا رہا ہے۔