فوٹو سوشل میڈیا
فوٹو سوشل میڈیا

پاک- افغان جنگ بندی کا معاہدہ اور خدشات

امت رپورٹ :
پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ ہونا خوش آئند ہے، لیکن یہ خدشات اپنی جگہ موجود ہیں کہ امن کے لیے اٹھائے جانے والے ان اقدامات کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے، جیسا کہ اڑتالیس گھنٹے کی سیز فائر کے دوران ہوتا رہا۔

اس عارضی جنگ بندی کے دوران افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے پاکستان پر حملوں کا سلسلہ نہیں رکا تھا۔ حتیٰ کہ دوحہ معاہدے سے ایک روز قبل سترہ اکتوبر کو بھی شمالی وزیرستان کے علاقے خادی میں حافظ گل بہادر گروپ نے بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے حملہ کیا۔ اس کے نتیجے میں تین خواتین، دو بچوں سمیت پانچ عام شہری اور سیکورٹی فورسز کا ایک جوان شہید ہوا۔ پاکستان ان تمام واقعات کا بھرپور جواب افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کے خلاف تباہ کن فضائی حملوں کے ذریعے دیتا رہا، جو ایک طے شدہ پالیسی کا حصہ تھا۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان دہشت گردی کے ہر اس واقعے کا جواب افغانستان کی سرزمین پر دے گا، جس کے تانے بانے وہاں موجود تنظیموں سے جا ملتے ہوں گے۔

یہ ایک طرح سے ’’نیو نارمل‘‘ ہے جس نے ماضی کے ’’اولڈ نارمل‘‘ کی جگہ لے لی ہے، جس کے تحت پہلے اس نوعیت کی دہشت گردی پر محض احتجاج، اپیل یا مذمت کردی جاتی تھی۔ تاہم اب دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں جنگ بندی کے معاہدے کی توثیق کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان اس پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر افغانستان سے دہشت گردی کا سلسلہ فی الفور بند ہوگا۔ اور یہ کہ دونوں ہمسایہ ملک ایک دوسرے کی سرزمین کا احترام کریں گے۔

دفاعی تجزیہ کاروں کے بقول اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف حالیہ کشیدگی کا خاتمہ ہو جائے گا، بلکہ خطے میں امن و استحکام کو بھی فروغ ملے گا۔ واضح رہے کہ دوحہ مذاکرات کی میزبانی ریاستِ قطر نے کی، جبکہ جمہوریہ ترکیہ نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ قطر کی وزارتِ خارجہ کے اعلامیے کے مطابق مذاکرات کے دوران فریقین نے نہ صرف فوری جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی، بلکہ دو طرفہ امن و استحکام کے لیے مستقل طریقہ کار وضع کرنے پر بھی اتفاق کیا۔

یاد رہے کہ پاکستان کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین سے پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کو روکے اور اس میں ملوث ٹی ٹی پی حافظ گل بہادر گروپ، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے۔ ذرائع نے بتایا کہ دوحہ مذاکرات میں بھی پاکستان کا یک نکاتی موقف اسی حوالے سے رہا اور اس پر کھل کر بات کی گئی۔ مذاکرات کا یہ پہلا دور تیرہ گھنٹے چلتا رہا۔

ادھر ان سارے معاملات سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر دوحہ میں ہونے والے معاہدے کے باوجود طالبان حکومت اپنی سرزمین سے پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی روکنے میں ناکام رہی تو پھر پاکستان ’’نیو نارمل‘‘ پالیسی کے تحت اس دہشت گردی کا جواب افغانستان کے اندر ان تنظیموں کے ٹھکانوں پر حملوں کے ذریعے دیتا رہے گا۔ یہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے حوالے سے ایک واضح، دو ٹوک اور جرات مندانہ پالیسی ہے، جسے سیاسی اور عسکری قیادت نے مل کر طے کیا ہے۔ اگرچہ حکومتی سطح پر اس پالیسی کو کوئی مخصوص نام نہیں دیا گیا ہے۔ تاہم تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ ایک طرح سے ’’نیو نارمل‘‘ پالیسی ہے۔

’’نیو نارمل‘‘ یا ’’نیا معمول‘‘ کی اصطلاح کا سادہ مطلب یہ ہے کہ جو قدم اٹھانے سے گریز کیا جارہا ہو، وہ اٹھا لیا جائے۔ یہ اصطلاح اگرچہ کافی پرانی ہے لیکن اس کی بازگشت دو ہزار انیس میں اس وقت سنائی دی جب پلوامہ میں ایک فالس فلیگ آپریشن کو جواز بنا کر بھارت نے پاکستان کی فضائی حدود عبور کرلی اور بالاکوٹ میں مہم جوئی کی، جو ناکام رہی۔ بھارتی فضائیہ کے اس ناکام حملے میں سوائے درختوں کے پتے گرنے کے کچھ نہیں ہوا تھا۔

اس ناکام کارروائی کو بھارتی تجزیہ نگاروں نے پاکستان کے خلاف مودی حکومت کی ’’نیو نارمل‘‘ پالیسی سے تعبیر کیا۔ کیونکہ اس سے قبل دو ہزار ایک میں نئی دہلی میں پارلیمنٹ ہاؤس پر اور دو ہزار آٹھ میں ممبئی میں ہونے والے بڑے حملوں کے الزامات حسب روایت پاکستان پر لگانے کے باوجود بھارت نے پاکستان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی جرات نہیں کی تھی۔

بعد ازاں خود بھارتی وزارت داخلہ کے سابق افسر آر وی ایس مانی نے انکشاف کیا تھا کہ بھارتی حکومت نے انسداد دہشتگردی کے قوانین میں ترامیم کے لیے خود ہی پارلیمنٹ ہاؤس اور ممبئی میں حملے کرائے۔ تاہم انتہا پسند بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد جتنے بھی فالس فلیگ آپریشن کرائے، اس کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف مس ایڈونچر کیا، جس کا آغاز جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ بالا کوٹ میں ناکام حملے سے کیا گیا اور پھر پہلگام فالس فلیگ اٹیک کو بہانہ بناکر رواں برس پاکستان کے خلاف میزائل حملے کیے گئے اور اسے بھی ’’نیو نارمل‘‘ سے جوڑا۔ حالانکہ بھارت کی اس ’’نیو نارمل‘‘ کی بنیاد جھوٹ پر مبنی ہے۔ جبکہ پاکستان کا معاملہ الگ ہے۔

اقوام معاہدہ کی پرانی اور تازہ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیمیں خطے کے ممالک کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ جبکہ پاکستان نے بھی متعدد بار افغان سرزمین سے اس کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کے ٹھوس شواہد طالبان قیادت کو فراہم کیے۔ یوں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی نئی پالیسی، جسے تجزیہ نگار ’’نیو نارمل‘‘ سے تشبیہ دے رہے ہیں، حقیقی بنیادوں پر استوار ہے۔

بھارت کی جانب سے نام نہاد ’’نیو نارمل‘‘ کے تحت اب تک جو دو مس ایڈونچر کیے گئے، پاکستان نے ان دونوں بزدلانہ کارروائیوں کا دندان شکن جواب دیا اور اس شکست کے زخم بھارت آج تک چاٹ رہا ہے۔ مثلاً بالا کوٹ میں بھارتی مس ایڈونچر کا جواب پاکستان نے انڈین لڑاکا طیارہ گرا کر دیا اور اس کے پائلٹ ابھی نندن کو پکڑ بھی لیا تھا

اسی طرح رواں برس مئی میں بھارت کے بزدلانہ حملے کے جواب میں پاکستان نے رافیل سمیت سات بھارتی طیارے مارگرائے، انڈیا کے روسی ساختہ دفاعی سسٹم ایس فور ہنڈرڈ کو ناکارہ بنایا اور متعدد فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ یہ ایک طرح سے بھارت کی نام نہاد ’’نیو نارمل‘‘ پالیسی کے جواب میں پاکستان کا کوئیڈ پرو کوہ پلس (quid pro que plus) تھا۔ ’’کوئیڈ پرو کوہ‘‘ ایک لاطینی اصطلاح ہے جو سولہویں صدی عیسوی میں متعارف کرائی گئی، جس کا لفظی مطلب ہے ’’ایسی چیز جو کسی اور چیز کے بدلے میں دی جائے‘‘۔

بعد ازاں اس اصطلاح کو سیاسی اور جنگی معاملات میں بھی استعمال کیا جانے لگا۔ چونکہ پاکستان نے بھارتی نام نہاد ’’نیو نارمل‘‘ کے جواب میں انتہائی طاقتور کارروائی کی، چنانچہ بعض تجزیہ نگاروں کی جانب سے پاکستان کے اس جوابی ایکشن کو ’’کوئیڈ پرو کوہ‘‘ کے ساتھ ’’پلس‘‘ کا لاحقہ لگا کر بیان کیا گیا۔ کیونکہ پاکستان نے بھارت کی توقعات سے بڑھ کر سخت ترین جواب دیا تھا۔

اگر افغان طالبان کے ساتھ ہونے والی حالیہ جھڑپوں کو دیکھا جائے تو اس میں پاکستان نے جہاں اپنی ’’نیو نارمل‘‘ پالیسی کے تحت پاکستان میں دہشت گردی کا جواب افغانستان کے اندر دیا، وہیں طالبان کی جانب سے اس کے ردعمل میں جب سرحدی چوکیوں پر فائرنگ اور گولا باری کی گئی تو پاکستان نے ’’کوئیڈ پرو کوہ پلس‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا بھی سخت ترین جواب دیا۔

کابل اور پکتیکا میں نو اور دس اکتوبر کی درمیانی شب کیا جانے والا فضائی حملہ پاکستان کی ’’نیو نارمل‘‘ پالیسی کا باقاعدہ آغاز تھا۔ یہ کارروائی ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے ایک ہفتے کے اندر پے در پے کیے جانے والے حملوں کا جواب تھا۔ ذرائع کے مطابق پچھلے چار برسوں میں دہشت گردی کے واقعات میں پونے چار ہزار سے زائد شہادتوں اور تمام تر سفارتی کوششوں کے بے نتیجہ ہونے پر پاکستان نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق طالبان رجیم کے خلاف نئی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ جب کابل اور پکتیکا میں ایئر اسٹرائیک کرکے اس پالیسی پر عمل کا آغاز کیا گیا تو یہ طالبان رجیم کے لیے حیران کن تھا۔

ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان اپنے دفاع کے لیے اس قدر آگے جا سکتا ہے۔ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں پہلی بار تھا کہ افغانستان کے دارالحکومت میں دہشت گردوں کو براہ راست نشانہ بنایا گیا۔ اگرچہ اس کی سرکاری طور تصدیق نہیں کی گئی۔ پاک فوج کے ترجمان سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق یا تردید کیے بغیر دو ٹوک کہا تھا ’’میں آپ کو یہ واضح کر چکا ہوں کہ افغانستان میں محفوظ ٹھکانوں کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے شواہد موجود ہیں۔

پاکستان کے عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں، وہ کیے جائیں گے اور کیے جاتے رہیں گے‘‘۔ بعد ازاں جب کابل اسٹرائیک کو جواز بناتے ہوئے طالبان نے پاکستانی سرحدی چیک پوسٹوں حملہ کیا تو ’’کوئیڈ پرو کوہ پلس‘‘ کے تحت پاکستانی کی جوابی کارروائی کا سلسلہ صبح فجر تک چلتا رہا۔

اسی طرح جمعہ کے روز حافظ گل بہادر گروپ کی جانب سے شمالی وزیرستان میں کی جانے والی دہشت گردی کا جواب ’’نیو نارمل‘‘ کے تحت اسی رات پکتیکا میں حافظ گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے کرکے دے دیا گیا تھا۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق افغانستان کے صوبے پکتیکا کے علاقوں میں موثر اسٹرائیکس کے ذریعے گل بہادر گروپ کے ستر سے زائد خوارج ہلاک کیے گئے۔ جبکہ قندھار اور کابل میں بھی خوارج کے ٹھکانوں پر ٹارگٹڈ کارروائی کی گئی۔

اس دوران دوحہ میں پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات کی خبریں چلنی شروع ہوگئیں۔ دونوں ممالک کے مذاکرات کار قطر کے دارالحکومت پہنچے۔ بعد ازاں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب یہ خوش آئند خبر جاری ہوئی کہ فریقین نے فوری جنگ بندی پر اتفاق کرلیا ہے۔ دوحہ معاہدے کے تحت ہونے والی جنگ بندی کا دار و مدار دہشت گردی کے مزید حملوں کو روکے جانے سے ہے۔ اس نوعیت کا مزید کوئی واقعہ جنگ بندی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔