\
 بعض ڈکیت گروپ بھاری معاشی فوائد حاصل کرنے سمیت املاک کے تحفظ کا مطالبہ بھی کررہے ہیں، فائل فوٹو

کچے کے ڈاکوئوں نے مشروط عام معافی ٹھکرا دی

ارشاد کھوکھر:
حکومت سندھ کی جانب سے ہتھیار ڈالنے والے سندھ کے کچے کے ڈاکوئوں کو عام معافی دینے کے اعلان کو دو ہفتے گزر چکے۔ تاہم ابھی تک ایک بھی ڈاکو نے پولیس کے سامنے سرنڈر نہیں کیا ہے۔ اس سلسلے میں بڑی وجہ مختلف قبائل کے درمیان خونریز تصادم ہے۔ ان قبائل کے درمیان تصادم کے خاتمے کے بغیر حکومتی پالیسی پر مکمل عملدرآمد ہونا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ تاہم سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سندھ کے کچے کے ڈاکوئوں کے مین پندرہ گروپس ہیں۔ جن میں سے تقریباً 252 ڈاکو ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں ابھی بعض رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ جنہیں جلد ختم کر کے طریقہ کار کو واضح کیا جائے گا۔ کچے کے علاقے میں بدامنی کا فیلڈ مارشل عاصم منیر نے بھی سخت نوٹس لیا تھا جس کے بعد امن و امان قائم کرنے کے لیے مذکورہ پالیسی متعارف کرائی گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سندھ کے کچے کے علاقے خصوصاً ضلع گھوٹکی، کشمور، سکھر، شکارپور، خیرپور اور لاڑکانہ میں ڈاکو راج ختم کر کے امن و امان قائم کرنے کی پالیسی متعارف کرانے کے متعلق گزشتہ تقریباً ایک برس سے غورو فکر کیا جارہا تھا۔ اس سلسلے میں مقدر حلقوں کو بھی اعتماد میں لینے کے بعد سندھ کابینہ نے 6 اکتوبر کو حکومت کے سامنے سرنڈر کرنے والے ڈاکوئوں کو معافی دینے کا اعلان کر چکی ہے۔ پالیسی میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوئوں کو عدالتوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اور ڈاکوئوں کے ساتھ کرمنل پروسیجر مجریہ 1898ء اور سندھ کرمنل پراسکیوشن سروس 2009ء کے قانون کے تحت برتائو کیا جائے گا اور کوئی بھی ادارہ ڈاکوئوں کے خاندان وغیرہ کو ہراساں نہیں کر سکے گا اور کچے کے علاقے میں ترقیاتی کام تیز کیے جائیں گے۔ اور ان کے خاندان کے افراد کو ملازمتیں بھی دی جائیں گی۔ حکومت سندھ کے مذکورہ اعلان کو دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک کسی بھی ضلع سے کسی ایک ڈاکو کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی اطلاعات نہیں ملی ہیں۔

اس سلسلے میں حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کچے کے علاقے میں مستقل امن و امان کے قیام کے لیے بعض حلقوں کی یہ تجویز تھی کہ سندھ کے کچے کے ڈاکوئوں کو بھی جس طرح بلوچستان میں قومی دھارے میں آنے والے افراد کو مکمل عام معافی دی جارہی ہے اسی طرز پر سندھ کے کچے کے ڈاکوئوں کو بھی عام معافی دی جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس تجویز پر غوروخوض کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ کئی ڈاکو ایسے ہیں جو مختلف قتل کی وارداتوں میں ملوث ہیں جو اپنے مخالف قبائل کے کئی افراد کو قتل کر چکے ہیں۔ اس صورت حال میں اگر بلوچستان کی طرز پر انہیں مکمل معافی دی جائے گی تو اس سے مستقل امن و امان قائم ہونے کے بجائے متعلقہ قبائل کے درمیان خونریز تصادم مزید زور پکڑے گا۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ ڈاکوئوں کو اس طرح معافی دی جائے۔

مذکورہ ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ کابینہ نے جو پالیسی منظور کی ہے اس کے تحت ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوئوں کو قانون کے مطابق عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم ایسے ڈاکوئوں کو پراسیکیوشن کے تحت مدد فراہم کی جائے گی۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ جو پالیسی منظور ہوئی ہے اس کے مطابق قتل اور دیگر سنگین وارداتوں میں ملوث رہنے والے ڈاکوئوں کو یہ رعایت بھی حاصل نہیں ہوگی۔

سندھ کابینہ کی جانب سے منظور کردہ مذکورہ پالیسی کے بعد بعض اخبارات نے اس پر ایڈیٹوریل بھی لکھے اور اس سلسلے میں حکومت پر میڈیا میں سب سے بڑی تنقید یہ کی جارہی ہے کہ سندھ میں لاکھوں نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لے کر ملازمتوں کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں اگر سرنڈر کرنے والے ڈاکوئوں کو ملازمتیں دی جائیں گی تو اس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور یہ تاثر عام ہو گا کہ پہلے ڈاکو بن جائو اس کے بعد سرنڈر کر کے ملازمت حاصل کر لو۔

تاہم حکومت سندھ کے اعلیٰ سطح کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ سرنڈر کرنے والے ڈاکوئوں کو ملازمتیں ملنے کے متعلق مختلف میڈیا گروپس میں جو تاثر دیا جارہا ہے وہ درست نہیں۔ صوبائی حکومت نے جو پالیسی اختیار کی ہے اس کے مطابق سرنڈر کرنے والے کسی بھی ڈاکو کو سرکاری ملازمت نہیں دی جائے گی۔ اس سلسلے میں ان ڈاکوئوں کے خاندان کی کفالت کے لیے ملازمتوں میں خواتین کو ترجیح دی جائے گی یا ان کے خاندان کے ایسے افراد جن کا کرمنل ریکارڈ نہ ہو ان کو ملازمتیں مل سکیں گی۔ اس کے لیے مذکورہ ذرائع نے بڑی دلیل یہ پیش کی کہ سرنڈر کرنے والے ڈاکوئوں کے خاندانوں کو ہاری کارڈ اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی پالیسی پر پورے اترنے والے افراد کو مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ مالی معاونت خصوصاً خواتین کے لیے ہی ہوگی۔

دوسری جانب پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومت سندھ نے اس سلسلے میں جو پالیسی متعارف کرائی ہے اس کا مطالبہ مختلف حلقوں کے ذریعے خود ڈاکو ہی کررہے تھے۔ کیونکہ بدامنی بڑھ جانے کے بعد اعلیٰ سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اب بہت کچھ ہو چکا ڈاکوئوں کی آماجگاہوں کے ان کے گائوں دیہات بھی جلائے جائیں گے۔ جس کے بعد مختلف قبائل کے بااثر افراد اور سردار نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ڈاکو ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار ہیں۔ مذکورہ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ سندھ میں کچے کے ڈاکوئوں کے مین پندرہ گروپس ہیں۔ باقی کرمنل افراد ان گروپس کے ماتحت ہیں اور ان گروپس سے تعلق رکھنے والے تقریباً 252 ڈاکو ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار ہیں۔ جن میں سے تقریباً 130 کا تعلق لاڑکانہ ڈویژن اور تقریباً 122 ڈاکوئوں کا تعلق سکھر ڈویژن سے ہے۔

مذکورہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکوئوں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے طریقہ کار پر غور ہورہا ہے۔ جس میں ایک تجویز یہ بھی سامنے رہی ہے کہ اس سلسلے میں ضلع کشمور میں ایک تقریب منعقد کی جائے۔ جس میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ افسران، متعلقہ قبائلی سرداروں کے سامنے ڈاکو ایک ساتھ ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کریں۔ جبکہ دوسری تجویز یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں ضلعی سطح کی یہ پالیسی بنائی جائے کہ ڈاکو متعلقہ اضلاع کے ایس ایس پیز کے دفاتر میں پیش ہو کر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کریں۔ مذکورہ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا یہ حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں کچھ رکاوٹیں آرہی ہیں جنہیں جلد دور کیا جائے گا۔

ان رکاوٹوں کے متعلق بعض ذرائع یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کے دعوے کے برعکس ہتھیار ڈالنے میں ہچکچا رہے ہیں۔ اور ان کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا جارہا ہے کہ ان کے پاس بھاری مالیت کا اسلحہ ہے اور ان کے پاس دیگر املاک بھی ہیں۔ اور جہاں تک ان کی زمینوں اور دیگر املاک کے بات ہے تو اس کے تحفظ کو یقینی بنانا مذکورہ پالیسی میں شامل ہے۔

جبکہ بعض ذرائع یہ بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ قتل و غارت، اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار کر کے زندگی بسر کرنے والے بعض ڈاکوئوں کے گروپس حکومتی سطح پر بڑے معاشی فوائد حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے خاندانوں کو حکومت کی جانب سے بھاری معاوضے بھی ادا کیے جائیں تاکہ ان کے خاندان معاشی طور پر بہتر زندگی بسر کریں۔ تاہم سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان کے سامنے ابھی تک کسی بھی بااثر سردار نے یہ مطالبہ نہیں رکھا اور نہ ہی ایسا ممکن ہے کہ سندھ کابینہ کی جانب سے منظور کردہ پالیسی سے ہٹ کر کوئی قدم اٹھایا جائے۔