فائل فوٹو
فائل فوٹو

پنجاب میں بسنت کھٹائی میں پڑ گئی

نواز طاہر:
پنجاب میں محدود پیمانے پر بسنت منانے کی اجازت دینے کیلئے ابتدائی انتظامی تیاریوں کے دوران ہی لاہور اور اس کے نواح میں گردن پر ڈور پھرنے کے دو واقعات کے بعد بسنت منانے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔ جبکہ پتنگ بازی سے منسلک حلقے پہلے ہی اس امکان کو معدوم قراردے رہے تھے۔

لاہور میں منگل کے روز ڈور پھرنے کے دو واقعات پیش آئے جن میں سے ایک نوجوان نعمان یوسف گردن کٹ جانے کے باعث اسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑ گیا۔ جبکہ شہر سے بیس میل کے فاصلے پر ضلع شیخوپورہ کی حدود میں کالاشاہ کاکو کے علاقے میں علی رضا شدید زخمی ہوگیا، جسے اسپتال منتقل کردیا جہاں اس کی حالت تشویشناک بیان کی جاتی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ لاہور کے پرانے علاقے مزنگ کا اکیس سالہ میڈیکل ریپ نعمان یوسف موٹر سائیکل پر گھر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھانہ نواں کوٹ کی حدود میں گذر رہا تھا، جہاں پتنگ کی خطرناک ڈور اس کے گلے پر پھر گئی۔ اسے اسپتال منتقل کیا جارہا تھا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ متوفی ایک چھوٹے بھائی، دو بہنوں اور والدہ پر مشتمل خاندان کا واحد کفیل تھا جس کی لاش گھر پہنچنے پر پورے محلے میں کہرام مچ گیا۔ اسی طرح جی ٹی روڈ پر کالا شاہ کاکو کے قریب بھی ایک نوجوان علی رضا کے گلے میں ڈور پھرنے کی اطلاع ملی۔ اسے تشویش ناک حالت میں اسپتال منتقل کردیا گیا اور اس کی جان بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ڈور پھرنے کے واقعات کے بعد وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے نوٹس لیتے ہوئے لاہور پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ سوگوار خاندان سے افسوس اور دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ذمہ داران کیخلاف فوری کارروائی کا حکم بھی دیا ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ زکر ہے کہ ماضی میں جس علاقے میں میں پتنگ اڑتی دکھائی دیتی تھی ، اس علاقے کے ایس ایچ او کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جاتی رہی ہے اور کئی ایس ایچ او اس بنا پر معطل ہوچکے ہیں۔ کارروائی سے بچنے کیلئے پولیس نے تسلسل کے ساتھ پتنگ بازی کی روک تھام کیلئے بڑی تعداد میں مقدمات درج اور پتنگ باز گرفتار کیے۔

حالیہ واقعات میں کسی بھی تھانے کے ایس ایچ او کے خلاف یہ سطور لکھے جانے تک کوئی کارروائی ہونے کی اطلاع نہیں ملی اور نہ ہی پولیس حکام نے اسے اپنی غفلت تسلیم کیا ہے۔ اس کے برعکس پولیس کی طرف سے پتنگ بازوں کیخلاف کی جانے والی کارروائی کی کارکردگی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ سرکاری طور پر جاری کیے جانے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے سی سی پی او سے رپورٹ طلب کی ہے اور شعبہ آپریشن کے ڈی آئی جی کو پتنگ بازی میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا ہے۔

پولیس کے ترجمان کے مطابق صرف لاہور ہی نہیں پورے صوبے کے آر پی اوز، سی پی اوز اور ڈی پی اوز کو پتنگ بازوں، پتنگ فروشوں، مینوفیکچررز کے خلاف کریک ڈاون میں تیزی لانے کی ہدایت کی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ پتنگ بازی کی ممانعت کے قانون پر پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ دھاتی ڈور اور پتنگوں کے آن لائن کاروبار میں ملوث عناصر کو بھی قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ پولیس کی طرف سے جاری کیے جانے والے اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال صوبے بھر میں پتنگ بازی کی ممانعت کے قانون کی خلاف ورزی پر پانچ ہزار سات سو چوراسی مقدمات درج ، پانچ ہزار نو سو سڑسٹھ افراد گرفتار ، پانچ لاکھ انتیس ہزار آٹھ سو چودہ پتنگیں، اکیس ہزار تین سو ایک چرخیاں برآمد کی گئیں اور پانچ ہزار تین سو باسٹھ مقدمات کے چالان عدالتوں میں بھجوائے گئے۔

واضح رہے کہ صوبائی حکومت نے محدود پیمانے پر بست منانے کی تیاری شروع کی تھی اور اس ضمن میں ضلعی انتظامیہ سمیت تمام اداروں سے قابلِ عمل رپورٹ طلب کی تھی۔ اس ضمن میں ہونے والی میٹنگ میں پتنگ بازی سے منسلک رہنے والے افراد کی نمائندگی بھی یقینی بنائی گئی تھی۔ تاہم بسنت سے منسلک رہنے والے افراد نے بتایا تھا کہ جن لوگوں کو سرکاری اجلاس میں بلایا گیا تھا وہ حقیقی نمائندے نہیں اور نہ ہی رائج قانون کے تحت کوئی تنظیم بن سکتی ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے بعد بسنت محدوعد پیمانے پر منانے کا امکان بھی معدوم ہے اور غالب امکان یہ ہے کہ خود پولیس کی طرف سے ہی اس کی مخالفت کردی جائے۔ اس میٹنگ کے بعد شہر میں چوری چھپ کر کی جانے والی پتنگ بازی میں گذشتہ دو ہفتے سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ان دو ہفتوں میں ماضی کی نسبت سب سے کم قانونی کارروائی کی گئی ہے۔