امت رپورٹ:
وفاقی حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی لگانے کی منظوری دے دی ہے۔ تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی۔ اس سلسلے میں کون سے مراحل طے کرنے ہوں گے؟ اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کے بقول وفاقی حکومت کا کیس بہت مضبوط ہے۔ لہٰذا زیادہ امکان یہی ہے کہ سپریم کورٹ، ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کی توثیق کردے گی۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کنور دلشاد کا کہنا تھا ’’پنجاب حکومت کی کابینہ نے وفاقی حکومت کو باقاعدہ سفارشات بھیجی تھیں کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو کالعدم قرار دیا جائے۔ وفاقی حکومت کی کابینہ نے صوبائی حکومت کی سفارشات کو تسلیم کرلیا اور ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کا ایگزیکٹیو آرڈر پاس کردیا۔ یہ ایگزیکٹیو آرڈر، آئین کے آرٹیکل سترہ کی ذیلی شق تین کے تحت پاس کیا گیا۔ اب آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت وفاقی حکومت نے پندرہ دن کے اندر ایک ریفرنس پورے دلائل کے ساتھ سپریم کورٹ میں بھیجنا ہے۔
وفاقی حکومت کے پاس اس حوالے سے بہت ٹھوس مواد ہے۔ وفاقی حکومت کا وکیل سپریم کورٹ میں ممکنہ طور پر اپنا کیس پیش کرتے ہوئے کہے گا کہ ٹی ایل پی پر پابندی کی سفارشات پنجاب کی صوبائی حکومت نے ہمیں بھیجی تھیں، یہ ہمارا فیصلہ نہیں۔ پنجاب حکومت کی سفارشات پر ہم نے ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری دی۔ کیونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے بھیجا جانے والا مواد ٹھوس شواہد پر مبنی ہے، جو کسی بھی پارٹی کو کالعدم قرار دینے کے لئے کافی ہوتا ہے۔
‘‘ کنور دلشاد کے مطابق اب سپریم کورٹ پاکستان نے اس فیصلے کی توثیق کرنی ہے۔ سپریم کورٹ فریقین کو نوٹسز جاری کرے گی۔ کیس کی سماعت کے دوران باقاعدہ دلائل اور بحث ہوگی۔ اس سوال پر کہ ٹی ایل پی پر پابندی کا معاملہ سپریم کورٹ کا آئینی بنچ سنے گا یا ریگولر بنچ سنے گا؟ کنور دلشاد کا کہنا تھا ’’یہ معاملہ غور طلب ہے کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کا ریگولر بنچ سنے گا یا آئینی بنچ سنے گا۔ بادی النظر میں چونکہ یہ باقاعدہ ایک ایگزیکٹیو آرڈر ہے۔ لہٰذا یہ معاملہ سپریم کورٹ کے ریگولر بنچ میں جائے گا۔ کیونکہ یہ کوئی آئینی معاملہ نہیں ہے۔ آئین کے آرٹیکل سترہ میں بھی سپریم کورٹ لکھا ہے، بنچ وغیرہ کا ذکر نہیں۔‘‘
اس سوال پر کہ سپریم کورٹ اس حوالے سے کتنے دن میں فیصلہ سناسکتی ہے؟ کنور دلشاد نے بتایا ’’ پہلے یہ تھا کہ سپریم کورٹ اس نوعیت کے کیس کا فیصلہ ایک مہینے کے اندر کرنے کی پابند تھی۔ لیکن اب یہ شق ختم کردی گئی ہے۔ لہٰذا سپریم کورٹ کی مرضی ہے کہ جب تک چاہے ، وہ فیصلہ کرسکتی ہے۔ لیکن میرے خیال میں سپریم کورٹ یہ فیصلہ جلد کرے گی، یعنی ایک ماہ کے اندر ہی فیصلہ آسکتا ہے۔ کیونکہ یہ اہم ریاستی معاملہ ہے۔‘‘
کنور دلشاد کے بقول سپریم کورٹ میں متاثرہ پارٹی ٹی ایل پی بھی اپنا وکیل اور اپنے دفاع میں شواہد اور گواہ پیش کرے گی۔ جبکہ وفاقی حکومت بھی اپنے تمام گواہان ، دستاویزی اور ویڈیوز شواہد اور متعلقہ اداروں کی رپورٹس سپریم کورٹ میں پیش کرے گی۔ وفاقی حکومت ناصرف مریدکے، واقعہ کے تمام شواہد پیش کرے گی بلکہ دوہزار سولہ سے لے کر اب تک ٹی ایل پی نے جتنے احتجاج کئے اور اس دوران جو کچھ ہوتا رہا، جتنے مقدمات درج ہوئے، وہ سب بھی عدالت کو دے گی۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیئے جانے اور اس سے متعلق شواہد بھی وفاقی حکومت پیش کرے گی، جس سے اس کا کیس مزید مضبوط ہوسکتا ہے۔ تب اگرچہ پی ٹی آئی حکومت نے ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیئے جانے کا معاملہ واپس لے لیا تھا، لیکن یہ فیصلہ واپس لینے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اہم رول ادا کیا تھا۔ ان کے کہنے پر عمران خان حکومت فیصلہ لینے پر مجبور ہوئی تھی۔ اس بار ایسا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
کنور دلشاد کے مطابق وفاقی حکومت کا کیس اس لئے بھی مضبوط ہے کہ اس بار ٹی ایل پی کے احتجاج کا جواز نہیںبنتا تھا۔ کیونکہ غزہ جس معاملے پر وہ احتجاج کرنا چاہتی تھی، وہاں جنگ بندی کے بعد خود اہل فلسطین جشن منارہے تھے۔ انہوں نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا تو بہت سے ایسے رازوں سے بھی پردہ اٹھ جائے گا، جو اب تک سامنے نہیں لائے گئے۔ مثلاً احتجاج کے دوران حکومت کیا کیا ایکشن لیتی رہی اور ساتھ ہی ٹی ایل پی کو جو جانی نقصان ہوا، اس کی اصل تعداد بھی سامنے آجائے گی۔ اپنے دفاع میں ٹی ایل پی کو جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے اپنے کارکنان کی درست تعداد عدالت کو باقاعدہ شواہد کے ساتھ بتانا ہوگی۔ یوں اب تک اعداد کے حوالے سے جو ابہام موجود ہے، وہ ختم ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ جمعرات کے روز وفاقی حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی لگانے کی منظوری دیتے ہوئے ضابطے کی کارروائی کے لئے وزارت داخلہ کو احکامات جاری کردیئے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں متفقہ طور پر ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کی منظوری دی گئی۔ جاری کئے گئے اعلامیہ کے مطابق وفاقی کابینہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کی منظوری دی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کی درخواست پر وزارت داخلہ نے سمری وفاقی کابینہ میں پیش کی اور کابینہ کو ٹی ایل پی کی ملک میں پرتشدد اور دہشت گردانہ سرگرمیوں پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں حکومت پنجاب کے اعلیٰ افسران نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ دوہزار ایک میں بھی اس وقت کی حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی لگائی تھی۔ یہ پابندی چھ ماہ بعد اس شرط پر ہٹائی گئی تھی کہ آئندہ ملک میں بے امنی اور پرتشدد کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔ چنانچہ تنظیم پر پابندی کی وجہ دوہزار اکیس میں دی گئی ضمانتوں سے روگردانی بھی ہے۔ ماضی میں بھی ٹی ایل پی کے پرتشدد جلسوں اور ریلیوں میں سیکیورٹی اہلکار اور بے گناہ راہ گیر جاں بحق ہوئے تھے۔ اعلامیہ کے مطابق وفاقی کابینہ متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ٹی ایل پی دہشت گردی اور پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos