فائل فوٹو
فائل فوٹو

منی لانڈرنگ ثابت ہونے پر سعد رضوی کو سخت سزا کا امکان

عمران خان :
کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے اندر موجود فنڈنگ کے منظم نیٹ ورک کا سراغ لگا کر اس کو کمزور کرنے کے لئے ایف آئی اے میں شروع کی گئی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔ مضبوط کیس بنانے کے لئے اس ملک گیر کریک ڈائون کے لئے تفتیشی مراحل کو ایف آئی اے، این سی سی آئی اے اور پولیس پر مشتمل تین مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں شروع کی گئی انکوائریوں میں نامزد افراد کے بینک اکائونٹس سے پارٹی کو یا پارٹی عہدیداروں کو ہونے والے لین دین، فنڈز دینے اور لینے والوں کے ظاہر کردہ اور چھپائے گئے ذرائع آمدنی اور اثاثوں کی تحقیقات جلد مکمل کرنے کے لئے پنجاب پولیس کے مختلف خصوصی تفتیشی شعبوں سے 42 سینیئر انسپکٹرز کا تبادلہ ایف آئی اے میں کیا گیا ہے۔ تاکہ افرادی قوت کی کمی کو دور کیا جاسکے۔

’’امت‘‘ کو اسلام آباد میں موجود اہم ذریعے نے بتایا ہے کہ پہلے حصے میں صوبائی پولیس کے تھانوں میں درج ہونے والے درجنوں مقدمات میں ہونے والی گرفتاریوں اور ضبط کئے جانے والے شواہد سے ہر مقدمے میں علیحدہ ’’آف شوٹ منی لانڈرنگ‘‘ کی انکوائریاں ایف آئی اے کے تحت کی جا رہی ہیں۔ ان تحقیقات میں ایف آئی اے اور صوبائی پولیس کے ساتھ نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے ) کو بھی آن بورڈ لے لیا گیا ہے۔ گزشتہ 10 روز سے جاری اس خصوصی آپریشن کے ابتدائی مرحلے میں پیش آنے والی مشکلات اب ٹی ایل پی پر پابندی کے باقاعدہ نوٹیفکیشن کے اجرا نے کسی حد تک ختم کردی ہیں۔ اس پوری ایکسر سائز کے بڑے حصے پر پنجاب میں عمل کیا جا رہا ہے۔

ذرائع کے بقول 10روز قبل اس آپریشن کی ابتدا میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ حافظ سعد حسین رضوی کے گھر سے ایک بڑی اور منظم چھاپہ مار کارروائی میں غیر ملکی کرنسی اور سونا برآمدکیا گیا۔ اس بعد اس کے تانے بانے میں ملک بھر میں پارٹی کو فنڈز دینے والے افراد تک پھیلا دئے گئے۔ ذرائع کے مطابق یہ کارروائی پنجاب پولیس، ایف آئی اے اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے مشترکہ آپریشن کا حصہ تھی جو اس وقت کی گئی جب حکومت نے لاہور تا اسلام آباد مارچ کے دوران ٹی ایل پی کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا۔

اس ضمن میں سرکاری سطح پر تیار کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سعد رضوی اس کارروائی سے قبل ہی مرید کے، سے فرار ہو گئے، جبکہ اہلکاروں نے ان کی رہائش گاہ سے تقریباً 11 کروڑ روپے مالیت کی ملکی و غیرملکی کرنسی، قریب دو کلو سونا، چاندی کے زیورات اور درجنوں قیمتی گھڑیاں برآمد کیں۔ ایف آئی اے کے ایک سینئر پولیس افسر کے مطابق سعد رضوی کسی تجارتی سرگرمی میں ملوث نہیں تھے۔ اس کے باوجود ان کے گھر سے اتنی بڑی مالیت کا غیر ملکی سرمایہ ملنا ایک سوالیہ نشان ہے کہ یہ دولت کہاں سے آئی اور کس مقصد کے لیے استعمال ہو رہی تھی؟

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق تحقیق کا محور ’’منی لانڈرنگ‘‘ ہے یعنی یہ جاننا کہ کیا مذہبی چندہ، جلسوں کے عطیات، یا بیرون ملک سے موصول ہونے والی رقوم کسی غیرقانونی چینل سے ملک میں لائی گئیں۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد سعد رضوی، ان کے بھائی انیس رضوی اور قریبی رفقا کے تمام بینک اکائونٹس اور جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کی جا رہی ہیں۔ ایف آئی اے کا موقف ہے کہ کئی اکائونٹس مبینہ طور پر احتجاجی سرگرمیوں اور سوشل میڈیا مہمات کی فنڈنگ کے لیے استعمال ہوئے۔ بعض غیر ملکی ٹرانزیکشنز کا سراغ بھی ملا ہے۔ جنہیں مشکوک قرار دیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ٹی ایل پی نے اپنے مرکز ملتان روڈ کے اطراف کی درجنوں پراپرٹیز اپنے ہی کارکنوں کے نام خرید رکھی ہیں، جس سے وہ علاقہ عام شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ’’نو گو زون‘‘ بن چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق سعد رضوی نے اپنے ’’انتہائی وفادار‘‘ کارکنوں کے لیے وہاں مستقل رہائش کا انتظام کیا اور ان کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے لیس میڈیا سیل بھی قائم کیا گیا۔ جہاں سے تنظیم کی سوشل میڈیا اور بیانیاتی جنگ لڑی جاتی تھی۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول اگرپارٹی فنڈنگ کے اس نیٹ ورک میں منی لانڈرنگ کے کیس ثابت ہوجاتے ہیں تو یہ پہلی بار ہوگا کہ کسی مذہبی جماعت کی مالیاتی سرگرمیوں کو باقاعدہ طور پر ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے ذمرے میں لایا گیا۔ یہ قدم نہ صرف مذہبی تنظیموں کی فنڈنگ پر نئی بحث چھیڑ سکتا ہے، بلکہ بین الاقوامی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی نگرانی کے تناظر میں پاکستان کے لیے ایک اہم مثال بھی بن سکتا ہے۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول اب تک کی تحقیقات کے مطابق، ٹی ایل پی کی مالی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تنظیم چند دنوں میں لاکھوں کا احتجاجی سیٹ اپ کھڑا کر لیتی ہے جس میں بینرز، گاڑیاں، کھانے اور آن لائن انتہائی موثر سوشل میڈیا مہمات چلانا شامل ہیں، جن پر ایک دن میں کروڑوں روپے بھی خرچ ہوسکتے ہیں۔ یہ سب بغیر کسی مضبوط اور مسلسل منظم فنڈنگ کے ممکن ہی نہیں ہے۔ ذرائع کے بقول اگر ایف آئی اے تحقیقات میں فنڈنگ کا تعلق ہنڈی حوالہ نیٹ ورکس یا بیرون ملک ڈونرز سے ثابت ہوگیا تو منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے تحت سعد رضوی کو سخت سزائیں ہو سکتی ہیں۔

ایف آئی اے کو کالعدم ٹی ایل پی کے خلاف ہونے والے پولیس کے ابتدائی آپریشن سے متعلق جو ریکارڈ ملا ہے، اس کے مطابق پنجاب کے صوبے بھر میں سعد رضوی اور تنظیم کے خلاف 22 ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ جن میں دہشت گردی، قتل، ریاست کے خلاف نفرت انگیزی اور پولیس اہلکاروں پر حملے کے الزامات شامل ہیں۔ جب کہ مرکزی مقدمے میں مریدکے، میں ہونے والے تصادم کے دوران انسپکٹر شہزاد نواز کی شہادت کا ذمہ دار بھی سعد رضوی کو قرار دیا گیا ہے۔