استنبول مذاکرات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ پاکستان میں دہشت گردحملے روکنے سے افغان حکومت کا واضح گریز اور ٹال مٹول بات چیت کی ناکامی کاسبب ٹھہرے ،تاہم اس کے مذاکرات کاروں نے پاکستان کے معقول موقف سے اتفاق کیا گیا لیکن تین بار عین آخری لمحات میں کابل کی مداخلت نے معاہدے پر دستخط نہیں ہونے دیئے۔
ترکیہ میں پاکستان اور افغانستان کے وفود کی سطح پرمذاکرات بغیر کسی حتمی نتیجے کے ختم ہو گئے۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات میں افغان فریق نے واضح رکاوٹ اور عدم تعاون پر مبنی رویہ اپنایا ۔پاکستان میں حملوں کے لیے افغان سرزمین کا استعمال روکنے کے لیے عملی اور قابل تصدیق اقدامات پر اتفاق نہیں کیاجو اسلام آباد کا بنیادی مطالبہ ہے۔
افغان وفد کے کچھ ارکان کی طرف سے اشتعال انگیزگفتگوبھی ہوئی، بات کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیاگیا، اور انہوں نے کئی مواقع پر توہین آمیز اور حقارت آمیز زبان بھی استعمال کی۔ قطری اور ترک ثالث افغان وفد کے انداز پر حیران رہ گئے اور انہوں نے بالواسطہ طورپر اس رویئے پرحیرت کا اظہاربھی کیا۔مذاکرات کے دوران ایجنڈے کے زیادہ تر نکات پر گہرائی میں تبادلہ خیال کیا گیا تھا، لیکن اہم سیکورٹی آئٹم تعطل کا باعث بنا۔افغان فریق نے اس پر ٹھوس یقین دہانی دینے کے بجائے حیلوں بہانوں سے کام لیا۔
ایک باخبر ذریعے نے کہاکہ افغان وفد کی طرف سے سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے لیے مبہم یقین دہانیوں اور ذمہ داری قبول کرنے سے انکار نے مذاکرات کو نقصان پہنچایا۔ایک اور ذریعے کا کہناہے کہ پاکستان نے عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں اور سرحد پارسے نقل و حرکت کے بارے میں ناقابل تردید شواہد پیش کیے۔ان شواہد پر توجہ دینے کے بجائے، کچھ افغان نمائندوں نے موادکے ماخذ پر سوال اٹھایا اور بات چیت کو تیکنیکی وسیاسی مسائل کی طرف موڑنے کی کوشش کی۔
مذاکرات کے دوران، بار باران کی طر ف سے کابل کے ساتھ رابطہ کیاجاتارہا ،اس کے باعث بھی مذاکرات کو شدید نقصان پہنچااور ٹھوس نتیجے پر پہنچنے میں ناکامی ہوئی۔جب پاکستان نے افغان نمائندوں سے کہا کہ وہ پاکستانی شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملے کرنے والے گروہوں کو روکنے اور اکھاڑ پھینکنے کے لیے اقدامات کریں تو افغان وفد نے ایسی یقین دہانی کرانے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا اور دلیل دی کہ یہ عسکریت پسند ان کے موثر کنٹرول میں نہیں۔
یہ ایک ایسا موقف تھاجس نے ثالثوں کوبھی حیران کر دیا ۔
استنبول میں بات چیت کے دوران پاکستانی مذاکراتی وفد نے واضح کیا کہ اگر دشمن گروپ افغان سرزمین سے کارروائیاں اور پاکستان کے اندر حملے جاری رکھتے ہیں تو اسلام آباد اپنے عوام اور خودمختاری کا دفاع کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا حق محفوظ رکھے گا۔یہ انتباہ سرحد پار سے بار بار حملوں کے لیے ایک سنجیدہ، متناسب ردعمل کے طور پر دیا گیا تھا۔
مذاکرات کے دوران افغان وفد نے باہمی گارنٹیوں کی تجویز پیش کی، جس کے مطابق افغانستان کی یقین دہانیوں کے بدلے، پاکستان کو افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کرنے اور افغانستان میں حملوں کے لیے پاکستانی فضائی حدود کے کسی تیسرے فریق کے استعمال پر پابندی کی ضمانت دینی چاہیے۔اس پر پاکستانی وفد کے سربراہ جنرل شہاب اسلم نے واضح طور پر یاد دلایا کہ دشمنانہ کارروائیوں کے لیے سرزمین کا استعمال روکنے کی ذمہ داری سب سے پہلے افغانستان پر عائد ہوتی ہے۔
اسلام آباد نے واضح کیا کہ وہ کسی تیسرے ملک سے یکطرفہ کارروائیوں جیسے معاملات پر ضمانتیں نہیں دے سکتا اور نہ اس امرکو افغان سرزمین سے ہونے والی عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔اگر افغان سرزمین عسکریت پسندوں کی طرف سے استعمال ہوتی رہی تو پاکستان کو نقصان پہنچنے سے پہلے اس خطرے کو ختم کرنے کا حق محفوظ رہے گا۔ جب ثالثوں کی طرف سے افغانوں کو یقین دہانیاں پیش کرنے کی اجازت دینے پر زور دیا گیا تو پاکستانی وفد نے اس بات پر زور دیا کہ جھوٹی تردیدوں کو زمینی حقائق پر ترجیح نہیں دی جائے گی۔
جنرل شہاب نے زوردے کر کہا کہ پاکستان نے سرحد پار عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے معتبر، مصدقہ شواہد پیش کیے ہیں جن میں نقل و حرکت، اڈے اور کمانڈکی معلومات شامل ہیں اور اسلام آباد کو محض بیان بازی پرمبنی یقین دہانیوں کی بجائے ٹھوس، قابل عمل اقدامات کی توقع ہے۔
مذاکرات سے آگاہ ایک موقر ذریعے نے بتایا کہ 27/28اکتوبر کی رات 18گھنٹے تک مذاکرات جاری رہے۔ اس دوران دونوں فریقوں کی طرف سے تین بار مسودے کو حتمی شکل دی گئی۔اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ افغان فریق اس بار متفقہ مسودے پر قائم رہے، تیسری بار مکمل معاہدے کا مسودہ تیار ہونے کے بعد جنرل شہاب نے افغان فریق سے پوچھا کہ اسلام میں بتایا گیاہے کہ جو کچھ بھی تین بار کہا جائے یا تین بار کیا جائے وہ حتمی تصور ہوتا ہے توکیا یہ اب آپ کی طرف سے حتمی ہے؟
ذرائع نے بتایا کہ افغان وفد نے اس کا جواب "ہاں” میں دیا۔ تاہم حیران کن طورپر حتمی مسودے پر اتفاق کرنے کے فورا ًبعد اور معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل افغان فریق ایک بارپھرمذاکراتی کمرے سے باہر گیا اور کابل کے ساتھ فون پر بات کرنے کے بعد وہ اندر آ ئے اور معاہدے کے طے شدہ حتمی مسودے سے پیچھے ہٹ گئے۔اس پر قطری اور ترک ثالث بھی بھونچکا رہ گئے ۔ذرائع کے مطابق استنبول مذاکرات اس لیے رک گئے کیونکہ افغان فریق نے یقین دہانیوں کو قابل تصدیق کارروائی میں تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان ایک مذاکراتی، پرامن حل کے لیے پرعزم ہے، لیکن پنے بنیادی مطالبے پر سمجھوتہ نہیں کرے گایعنی افغان سرزمین کو حملوں کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال سے روکنا۔ثالثوں ،قطر اور ترکی،نے مایوسی کا اظہار کیا کہ افغانستان نے ان عملی تجاویز کا جواب نہیں دیا جن سے فوری حالات معمول پر آسکتے تھے۔
مذاکرات کی تفصیلات سے آگاہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ استنبول مذاکرات قطر میں مذاکرات کے تقریبا ایک ہفتے بعد شروع ہوئے تھے اوربات چیت کا عمل تین دن پر محیط رہا۔پہلے دن 19گھنٹے، دوسرے دن 11گھنٹے اور تیسرے دن 18گھنٹے تک گفت وشنید ہوئی۔ پاکستان کا بنیادی اور اصولی مطالبہ یہ رہا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی سرپرستی ختم کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔ان تین دنوں کے دوران کئی مواقع ایسے آئے جب افغان طالبان کے وفد نے، میزبان ممالک قطر اور ترکی کی موجودگی میں، پاکستان کے منطقی اور معقول دلائل سے اتفاق کیاتاہم جب معاہدے پر دستخط کا وقت قریب آیا، کابل سے موصولہ ہدایات پر وہ آخری لمحات میں پیچھے ہٹ گئے۔ایسا تین بار ہوا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کابل انتظامیہ کی افغان وفد کو دی جانے والی ہدایات معاملے میں پیش رفت کی راہ میں بڑی رکاوٹ رہی ہیں۔اس کے باوجود میزبانوں کی درخواست پر پاکستان نے مذاکرات کو کسی نتیجے پر پہنچنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔یہ پاکستان کے خلوص، عزم، معقول موقف اور تعاون کے جذبے کا واضح ثبوت ہے۔ اس کا مقصد نہ صرف افغانستان اور پاکستان بلکہ پورے خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنانا ہے، تاکہ کوئی ایسا خطرہ پیدا نہ ہو جس سے عالمی امن کو خطرہ ہو۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos