طویل عرصہ کیلیے سمندر جانے والی ہر لانچ میں ایک لاکھ روپے تک کا گٹکا ماوا ہوتا ہے، فائل فوٹو
 طویل عرصہ کیلیے سمندر جانے والی ہر لانچ میں ایک لاکھ روپے تک کا گٹکا ماوا ہوتا ہے، فائل فوٹو

ساحلی بستیاں گٹکے ماوا کا گڑھ بن گئیں

اقبال اعوان:
کراچی کی ساحلی آبادیاں گٹکے، ماوا کا گڑھ بن گئیں۔ مہینے یا ڈیڑھ ماہ کیلئے سمندر جانے والی ہر لانچ میں 80 ہزار روپے سے سوا لاکھ روپے تک کا گٹکا ماوا جاتا ہے۔ ماہی گیر گٹکے اور ماوا میں تیز تمباکو اور دیگر منشیات کا تڑکا لگاتے ہیں۔ شہر میں گٹکے ماوے کی تیاری اور فروخت پر پابندی ہے۔ لیکن رشوت خوری کے سبب دھندا چل رہا ہے۔ جبکہ اہلکار خود بھی گٹکا ماوا کھاتے نظر آتے ہیں۔

ماہی گیروں کا گٹکا اور ماوا شہر میں ملنے والے گٹکا ماوا سے مہنگا ہے۔ گٹکا چھوٹا 60 روپے اور بڑا 150 روپے کا ہے۔ جبکہ ماوا چھوٹا 80 روپے اور بڑا 170 روپے کا ملتا ہے۔ ماہی گیروں کی اکثریت جہاں گٹکا ماوا کھاتی ہے۔ وہیں ان کی بیشتر عورتیں اور بچیاں بھی گٹکا ماوا کھاتی ہیں۔ بلکہ خواتین گھروں پر بھی تیار کرتی ہیں۔ جبکہ ڈاکس کی مچھر کالونی، ابراہیم حیدری، چشمہ گوٹھ، ریڑھی گوٹھ، ٹھٹھہ اور بدین کے ساحلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر اسے تیار کیا جاتا ہے۔

عدالتی حکم پر بار بار پولیس کریک ڈائون کرتی ہے۔ تاہم اسپیشل پارٹیوں کی سیٹنگ کے باعث یہ سلسلہ پھر شروع ہو جاتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ساحلی علاقوں میں گٹکا اور ماوا پر کنٹرول کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ ماہی گیر جو ہزاروں لانچوں میں شکار پر جاتے ہیں، وہ سمندر میں اسے کھاتے ہیں۔ پولیس اور بااثر افراد کی وجہ سے یہ نیٹ ورک مسلسل چل رہا ہے۔ ماہی گیر شاپر میں گٹکے ماوا کی پڑیاں لے کر جاتے ہیں اور برف خانوں میں رکھ دیتے ہیں۔ ایک ناخدا احمد بخش نے بتایا کہ ماہی گیر سمندر میں جس طرح راشن، برف لازمی لے کر جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ اپنا گٹکا ماوا کا شاپر بھی ضرور لے کر جاتے ہیں۔

اس نے کہا کہ گٹکا ماوا جن علاقوں میں تیار ہوتا ہے۔ وہاں بااثر افراد نے پولیس کے ساتھ سیٹنگ کر رکھی ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ آزادانہ آبادیوں میں اسے کھاتے ہیں اور لانچوں تک لے کر جاتے ہیں۔ ایک گٹکا فروش کا کہنا تھا کہ لاکھوں روپے مقامی تھانوں کو بھتہ جاتا ہے۔ جبکہ دکان اور کیبن والوں سے اہلکار خود گٹکے ماوا کی پڑیاں لے کر جاتے ہیں۔ سمندر میں جس طرح کھانوں میں گھی، تیل، مرچ، مصالحے، شکر، نمک زیادہ رکھا جاتا ہے۔ اس طرح گٹکے ماوا کے اندر تمباکو اور دیگر کیمیکل کی مقدار زیادہ رکھی جاتی ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ گٹکے ماوے میں اسمگلنگ شدہ خراب چھالیہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سلاٹر ہائوس میں جانوروں کا جو خون اکٹھا ہوتا ہے، اسے خشک کر کے ڈالتے ہیں۔ جبکہ کتھے کی جگہ چمڑا رنگنے والا کیمیکل ڈالتے ہیں۔ اسی لئے ماہی گیروں کی بڑی تعداد، ان کے بچے، بچیاں، خواتین منہ کے کینسر، جبڑے، حلق، معدے، بڑی آنت کے کینسر میں مبتلا ہیں۔

گٹکا، ماوا 15 گرام سے 25 گرام تک پیکنگ میں آتا ہے۔ دوسری جانب ساحلی آبادیوں میں گٹکے ماوے کی تیاری گھروں پر کی جاتی ہے۔ ایک سوال پر اس نے کہا کہ ’جہاں ممنوعہ مال کو کم چیک کیا جاتا ہے۔ وہاں گٹکے ماوا لے کر جانے والوں کو کون چیک کرے گا۔ البتہ جب عدالت انتباہ کرتی ہے تو پولیس چند گٹکے والوں یا ماوا فروخت یا کھانے والوں کو پکڑتی ہے۔ سیٹنگ نہ کرنے والے چھوٹے کارخانوں پر چھاپے کی خبروں کی ویڈیو، اعلیٰ افسران کو دکھا کر مطمئن کر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد پھر یہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

کراچی فشری، ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ کے علاوہ دھڑلے سے ٹھٹھہ اور بدین کے ساحل سے سمندر میں جانے والے ماہی گیر اسپیشل گٹکا ماوا لے کر جاتے ہیں اور آبادیوں میں فروخت کرتے ہیں۔ ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ میں پولیس کارروائی کرے تو لیاری والوں کی طرح خواتین آڑے آجاتی ہیں اور پکڑے گئے افراد کو چھڑانے کیلئے پتھرائو اور ڈنڈوں کا استعمال کر کے کارروائی رکوادی جا تی ہے۔