نمائندہ امت:
حکومت سندھ کی جانب سے کچے کے ڈاکوئوں کے ہتھیار ڈالنے سے متعلق پالیسی کے راستے میں خود پیپلزپارٹی کے رہنما رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جب تک جام مہتاب ڈہر اور شہریار شر کے درمیان قبائلی دشمنی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، ڈاکوئوں کے خلاف کسی قسم کا آپریشن یا انہیں سرنڈر کرانے کی کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ دونوں کے زیراثر قبائل سے ڈاکوئوں کی اکثریت کا تعلق ہے۔ حتیٰ کہ ایک دوسرے کے خلاف خونریز حملوں میں بھی یہ ان ہی ڈاکوئوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ذرائع کے بقول دونوں کے مابین اگرچہ ایک بار صلح کرانے کی کوشش کرائی گئی تھی، لیکن وہ ناکام ہو گئی۔
واضح رہے کہ پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی وزیر اور موجودہ ایم پی اے جام مہتاب ڈہر سیلرا، سولنگی، دھوندو اور دیگر قبائل کی سرپرستی کرتے ہیں۔ جبکہ سابق ایم پی اے شہریار شر، کوش اور شر قبائل کے سردار ہیں۔ دونوں کے درمیان دیرینہ ذاتی دشمنی ہے۔ دوسری جانب ڈاکوئوں کے مختلف گینگ بلوچ قبائل اور جاموٹ (سماٹ) قبائل میں تقسیم ہونا بھی بدامنی کا بڑا سبب ہے۔ جو ہر وقت ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ہتھیار ڈالنے والے اکہتر ڈاکوئوں میں سے صرف سولہ ڈاکو عدالتوں میں پیش ہو کر جیل جا چکے ہیں۔ باقیوں کے ریکارڈ کی چھان بین جاری ہے۔
یاد رہے کہ سندھ کابینہ نے چھ اکتوبر کو ڈاکوئوں کے سرنڈر کرنے کی پالیسی کی منظوری دی تھی۔ جس کے بعد بائیس اکتوبر کو ضلع شکارپور میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطح کی تقریب میں خصوصاً ضلع شکارپور اور ضلع کشمور کے اکہتر ڈاکوئوں نے خطرناک ہتھیاروں سمیت پولیس کے سامنے سرنڈر کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سرنڈر کرنے والے ڈاکوئوں میں کئی خطرناک ڈاکو بھی شامل تھے۔ تاہم ان میں اکثریت ان کی ہے جنہوں نے ایک دوسرے سے قبائلی تصادم کے باعث مفرور ہوکر کچے کے علاقے میں پناہ لی ہوئی تھی۔ جہاں تک اغوا برائے تاوان اور اس نوعیت کے دیگر سنگین جرائم کی بات ہے، تو اس میں ضلع گھوٹکی اور ضلع کشمور سرفہرست رہے ہیں۔ جب تک ان اضلاع کے ڈاکو سرنڈر نہیں کرتے، تب تک کچے کے علاقے میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا۔
ذرائع نے بتایا کہ ضلع شکارپور میں جن ڈاکوئوں نے سرنڈر کیا، اس میں اہم کردار متعلقہ قبائلی سرداروں کا تھا، جنہوں نے حکومتی پالیسی کے تحت ڈاکوئوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے ساتھ کوئی دھوکا نہیں ہوگا اور عدالتوں میں پراسیکیوشن کے تحت انہیں ریلیف دلایا جائے گا۔ اس طرح شکار پور کی طرح جب تک ضلع گھوٹکی اور کشمور کے متعلقہ قبائلی سرداروں کے درمیان ذاتی دشمنی ختم نہیں ہوتی، تب تک بیشتر ڈاکو سرنڈر کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ کیونکہ سرداروں کی مداخلت کے بغیر انہیں پولیس اور انتظامیہ پر اعتبار نہیں۔ مقامی سطح پر اس کی ایک مثال یہ دی جاتی ہے کہ دو ہزار سولہ میں جب موٹروے ایم فائیو تعمیر ہو رہا تھا، اس وقت ضلع گھوٹکی میں امن و امان قائم کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ اس وقت شر گینگ کے بڑے ڈاکو سخی سلطان عرف سلطو شر نے پولیس کی یقین دہانی پر گناہوں سے تائب ہو کر سرنڈر کیا تھا۔ بعدازاں جب مسعود بنگش ایس ایس پی گھوٹکی تعینات ہوئے تو سلطو شر اور عمر شر نے رائونتی کے کچے کے علاقے میں امن میلے کا انعقاد بھی کیا تھا۔ لیکن تین برس قبل جب تنویر تنیو ایس ایس پی گھوٹکی بنے تو سلطان عرف سلطو شر پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ کچے کے علاقے میں اگائے جانے والے گنے کی ترسیل کو اوباڑو میں واقع ایک بااثر صوبائی وزیر کی شوگر مل تک یقینی بنانے کیلئے شہریار شر کو ایک ٹاسک دیا گیا تھا کہ مختلف گینگ سے تعلق رکھنے والے ڈاکوئوں سے بات چیت کر کے ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ گنے کی ترسیل ممکن ہو سکے اور امن امان کی صورتحال بھی بہتر ہو۔ اس سلسلے میں گزشتہ سال اکتوبر میں شہریار شر نے کچے کے علاقے میں جاکر شر گینگ سے تعلق رکھنے والے ڈاکوئوں سے ملاقات کر کے انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ پرامن رہیں گے تو ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی۔ اس کے بعد وہ شر گینگ کے ایک خطرناک ڈاکو عمر شر کو اپنے ساتھ ایس ایس پی گھوٹکی کے آفس میں مذاکرات کیلئے لائے۔ شہریار شر نے اپنے قریبی ساتھی احمد علی شر کو ضمانت کے طور پر ڈاکوئوں کے پاس چھوڑ دیا۔ ایس ایس پی سے ملاقات کے بعد جب عمر شر کچے کے علاقے میں پہنچا تو ڈاکوئوں کے ایک اور گینگ کے حملے میں وہ مارا گیا۔ جس سے شر گینگ کے ڈاکوئوں نے یہ اخذ کیا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ بدلے میں انہوں نے شہریار شر کے دوست احمد علی شر کو قتل کر دیا۔
ذرائع نے بتایا کہ شہریار شر اور جام مہتاب ڈہر کے درمیان پہلے شدید ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ بلکہ وہ ایک دوسرے کے سیاسی حریف تھے۔ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں شہریار شر پی ٹی آئی کی نشست سے ایم پی اے بنے۔ بعدازاں انہوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ گزشتہ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے شہریار شر کو پارٹی ٹکٹ دیا۔ لیکن جام مہتاب ڈہر بھی ان کے مدمقابل آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہو گئے۔ اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے ان دونوں کو یہ پیغام دیا کہ بھلے آپ دونوں الیکشن لڑیں، جو بھی جیتا وہ ہمارا ایم پی اے ہو گا۔ مہتاب ڈہر کو سردار علی گوہر خان مہر کی اندرون خانہ حمایت حاصل تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جام مہتاب ڈہر، شہریار شر کو شکست دے کر کامیاب ہو گئے۔
بعد ازاں انہوں نے باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ مہتاب ڈہر اور شہریار شر کے درمیان ذاتی دشمنی میں شدت اس وقت آئی جب مارچ دو ہزار پچیس میں جام مہتاب ڈہر کے قافلے پر حملہ ہوا۔ جس میں جانی نقصان بھی ہوا۔ مہتاب ڈہر نے اس حملے کی ایف آئی آر شہریار شر اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے خلاف درج کرائی۔ ذرائع نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کے دونوں رہنمائوں کے مابین صلح کرانے کیلئے سابق صوبائی وزیر عبدالباری پتافی اور چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل کشمور گل محمد جکھرانی نے کوشش کی۔ جس کے بعد شہریار شر صلح کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اور انہوں نے یہ صفائی پیش کی کہ جام مہتاب ڈہر کے حملے میں وہ کسی طرح بھی ملوث نہیں۔ اور اگر وہ کبھی بھی ملوث پائے گئے تو جرمانہ ادا کریں گے۔ لیکن جام مہتاب ڈہر نے صاف انکار کر دیا۔ کچے کے ڈاکوئوں میں ظہور شر عرف ظہوری ڈاکو کا اضافہ ہوا ہے۔ جس نے ایک دو ہفتے قبل دھوندو قبیلے کے تین افراد کو قتل کیا تھا۔ اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ڈاکو ظہور شر نے خود جام مہتاب ڈہر کو قتل کرنے کی دھمکی دی ہے۔ جس کے بعد مہتاب ڈہر نے اپنی سرگرمیاں محدود کر دی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ جام دھوندو، سیلرا اور سولنگی قبائل سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد جام مہتاب ڈہر کے زیراثر ہیں۔
مذکورہ قبائل سے تعلق رکھنے والے کافی جرائم پیشہ افراد ہیں۔ لیکن ان کے مقابلے میں شر اور کوش قبیلے کے ڈاکو زیادہ خطرناک ہیں۔ وہ شہریار شر کو اپنے سردار مانتے ہیں۔ اس طرح جب تک جام مہتاب ڈہر اور شہریار شر کے درمیان قبائلی دشمنی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، ڈاکوئوں کے خلاف کسی قسم کا آپریشن یا انہیں سرنڈر کرانے کی کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ دونوں کے زیر اثر قبائل سے ڈاکوئوں کی اکثریت کا تعلق ہے۔ حتیٰ کہ ایک دوسرے کے خلاف خونریز حملوں میں بھی یہ ان ہی ڈاکوئوں کو ہی استعمال کرتے ہیں۔
دریں اثنا بائیس اکتوبر کو ضلع شکارپور میں جن ڈاکوئوں نے سرنڈر کیا، ان میں سے اب تک تقریباً سولہ ڈاکو کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ جو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔ پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ باقی ڈاکوئوں کے ریکارڈ کی چھان بین کی جارہی ہے۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن ڈاکوئوں نے سرنڈر کیا، ان میں سے چھتیس کا تعلق ضلع شکار پور اور تینتس کا تعلق کشمور اور دیگر اضلاع سے ہے۔ ان کے مقدمات بھی جلد عدالتوں میں پیش کیے جائیں گے۔ جبکہ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ شکارپور میں ابھی تک جن بیس ڈاکوئوں کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، انہیں پولیس ہیڈ کوارٹر کے اسکول کی عمارت میں ٹھہرایا گیا ہے۔ جہاں انہیں طعام اور قیام کی بھرپور سہولت حاصل ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos