فائل فوٹو
فائل فوٹو

نیتن یاہو کا تخت ڈانواڈول

ندیم بلوچ :
غزہ پر مسلط دو سالہ جنگ کے باوجود حماس کو مٹانے میں ناکامی، نیتن یاہو حکومت کے لیے ملکی سطح پر بھی رسوائی کا سبب بن گئی ہے۔ اس وقت صہیونی وزیر اعظم کو ملک میں کرپشن کیسز کے الزام میں عدالتی کارروائیوں کا سامنا درپیش ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق نیتن یاہو کی عوامی مقبولیت تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ جنگ کے طویل ہو جانے، تمام یرغمالیوں کی واپسی میں ناکامی اور حماس کو مکمل ختم نہ کر پانے کے عوامل نے حکومتی اتحادیوں سمیت عوام کی بڑی تعداد کو اس کا مخالف بنادیا ہے۔ لیکن جو چیز نیتن یاہو حکومت کے گرنے کا فوری سبب بن رہی ہے وہ حالیہ عدالتی فیصلہ ہے۔ جنگ بندی کے بعد سے نیتن یاہو کو بدعنوانی کے مقدمات میں گواہی دینے کے لیے باقاعدگی سے ٹیلی ایوِو ڈسٹرکٹ کورٹ میں پیش ہونا پڑ رہا ہے۔

عدالت نے نیتن یاہو کے وکلا کی جانب سے ہفتہ وار سماعتوں کی تعداد کم کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ سماعتیں طے شدہ شیڈول کے مطابق جاری رہیں گی۔ نیتن یاہو کو ہفتے میں چار بار عدالت گواہی کیلئے پیش ہونا ہوگا۔ حالیہ مہینوں میں نیتن یاہو حکومت کے لیے سب سے بڑا دھچکا اسرائیل کی سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ ہے جس نے حریدی کو لازمی فوجی سروس سے استثنیٰ دینے کے نظام کو ختم کر دیا ہے۔ حکومت کے پاس اب مزید کوئی قانونی اختیار نہیں ہے کہ وہ حریدی یشیوا (مذہبی مدارس) کے طلبا کو فوج میں لازمی بھرتی سے مستثنیٰ قرار دے سکے۔

عدالت نے حکم دیا کہ ان تمام یہودی مذہبی مدارس کی سرکاری فنڈنگ فوری طور پر روک دی جائے، جن کے طلبا فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ نیتن یاہو کی حکومت کی بقا کا تمام تر انحصار دو بڑی حریدی جماعتوں (’’شاس‘‘ اور ’’یونائیٹڈ تورات جوڈائزم‘‘) کی حمایت پر ہے۔ ان حریدی جماعتوں نے واضح دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے طلبا کو زبردستی فوج میں بھرتی کیا گیا یا ان کے مدارس کی فنڈنگ روکی گئی تو وہ فوری طور پر حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔

تجزیہ کارروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ جماعتیں اتحاد چھوڑ دیتی ہیں، تو نیتن یاہو کی حکومت کنیسٹ (پارلیمنٹ) میں اپنی اکثریت کھو دے گی، جس کا لازمی نتیجہ حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات ہوں گے۔ ادھر کل، نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف مذہبی تنظیموں کی جانب یروشلم میں ہامیتر پل میں ملین مارچ منعقد کیا جارہا ہے۔ جسے مذہبی پیشواؤں کی جانب سے حکومت کو مسترد کرنے کے ممکنہ اعلان کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اور شاید وہ کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) کو تحلیل کرنے اور قبل از وقت انتخابات کرانے کا مطالبہ بھی کر دیں۔ عبرانی اخبار معاریف کے مطابق، سیاسی سال کے اختتام کے قریب آتے ہی حکومتی اتحاد کے اندر کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ کیونکہ اندازے یہ بتاتے ہیں کہ حکومت کے صرف ایک سال بعد ہونے والے قانونی انتخابات تک برقرار رہنے کے امکانات محدود ہو گئے ہیں۔

مبصرین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مذہبی پیشوا اس بحران سے خالصتاً مذہبی نقطہ نظر سے نمٹ رہے ہیں۔ کیونکہ ان کا موقف ہے کہ کوئی بھی حکومت جو ’’تورات کی دنیا‘‘ (مذہبی تعلیم) کی حفاظت نہیں کرتی، وہ باقی رہنے کی مستحق نہیں ہے۔ اگر حریدی مذہبی قیادت نے جمعرات کے مظاہرے میں کوئی فیصلہ کن موقف اختیار کیا تو حکومتی اتحاد یقینی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔