رحم عالی جاہ رحم،علامہ اقبال کے حوالے سے تحاریر میں اے آئی (AI) کی مدد اور غیر مستند اشعار کی بھرمار

ڈاکٹر ظفر اقبال
متعدد بار یہ دیکھنے میں آیا کہ ایک تحریر لکھی گئی، اور املا و گرامر اور نوک پلک کی درستی، کسی خاص مطلوب فارمیٹ میں ڈھالنے، زمرہ بندی، ہر قسم و نوع سرخیوں اور ذیلی سرخیوں میں رہنمائی کے لیے اس تحریر کو جب اے آئی کے حوالے کیا گیا یا نوٹس کی مدد سے اسے مکمل جامع تحریر کرنے کی کوشش کی گئی تو نتیجتاً حاصل ہونے والی تحریر اصل کے ساتھ ساتھ اضافہ جات کے ہمراہ لوٹی۔وہ جس ہمراہ کے ساتھ جہاں پر بھی گئی ، لوٹی تو میرے پاس آئی مگر کچھ مزید ہمراہ زادوں کے ساتھ ۔ جو ظاہر ہے مطلوب نہ تھے۔ اب حالالت یہ ہیں کہ
تھا جو نا مطلوب بتدریج وہی مطلوب ہوا ۔
اس اضافی "تحائف” کے پیکٹ میں کچھ مطلوب و نامطلوب کو اگلی پرکھ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن بعض "تحائف” انتہائی ہوش ربا اور خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔
علامہ اقبالؒ ان شخصیات میں سے ہیں جن کے اصل اشعار سے کہیں زیادہ جعلی اشعار انٹرنیٹ پر پورے زور و شور سے جاری و ساری ہیں۔ ایک اقبالؒ ہی کیا، بابا بلھے شاہ ؒاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی اس ستم کے شکار ہیں۔ مصنوعی ذہانت کو کئی گتھیاں سلجھانے اور مواد کی تصدیق کے لیے سند سمجھنے میں ابھی اتنی جلدی مچانا مناسب نہیں ہوگا۔ علامہ اقبال کے حوالے سے کچھ مضامین کی زبان کی اصلاح اور پختگی اور رہنمائی کے لیے اے آئی کے حوالے کیا تو ایسے ایسے اشعار در آئے: کہ بس… اردو ہی نہیں فارسی میں بھی اشعار تخلیق ہو کر در آئے۔ ان میں سے کئی تو اشعار بھی نہ تھے۔ ایک کی سند مانگی گئی تو "فاعلن فاعلاتن فاعلات” کی گردان سے سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ آپ ان جعلی اشعار کو ہی اصلی مان لیں۔ ہماری ہٹ دھرمی کے بعد اے آئی کی معروف دل موہ لینے والی "معذرت” کے ساتھ ترمیم کر کے مزید کچھ جعلی اشعار کی ٹوکری آ گئی۔ ہم نے پھر اسے خریدنے سے انکار کیا اور کچھ رحم فرمانے کی اپیل کی تو جوابی معذرت کے ساتھ تمہید میں ہماری تعریف کے وہ پل باندھے گئے کہ کچھ دیر کے لیے گمان ہوا کہ واقعی ہمارا اصل قدردان تو اس اے آئی کے پردے کے پیچھے ہی ہے ورنہ تو بس ایسا ہی ہے گزارا ہے۔
اس عمل میں اے آئی کے بھیجے گئے ایسے ہر شعر کو غور سے دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی؛ ہر شعر چیخ چیخ کر اپنا "جعل” ظاہر کر رہا تھا۔ لیکن خدشہ یہ کہ کئی نوجوان اسے صحیح سمجھ کر اپنے مضامین، تقاریر اور تھیسس میں شامل کر سکتے ہیں اور شعر کے ظاہری اسلوب، اصطلاحات، تراکیب اور رنگ روپ سے اسے کلام اقبال مان سکتے ہیں۔ جب بھی اے آئی سے پوچھا کہ "کیسے کر لیتے ہو یار؟” تو جواب مہذب لیکن عذر تراشی کا بھنور لگا۔ یہ ماڈل کئی بار اپنے ہی پکائے ہوئے "چکڑ چھولے” میں گرتا اور پھر معذرت کرتا ہے۔ لیکن کئی بار تو ایسا لگتا ہے، پھسل پھسل کر شروع سے کہنا شروع کر دیتا ہے کہ "اوہ! آج پھر مجھے پھسلنا پڑے گا”۔ یہ گھڑے ہوئے حوالہ جات، گھڑے ہوئے اشعار اور سلیکون گھڑت دیوان تو ہمیں "مل کے لوٹ لیں گے”۔
ہمیں تو لوٹ لیا مل کے ان جیالوں نے کالے کالے ڈالوں نے، گورے گورے ماڈلوں نے
اے آئی، معذرت کے دوران، کئی ایسے اشعار کے بارے میں اعتراض کے بعد معذرت کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ اصل میں یہ شعر انٹرنیٹ میں اقبال کے نام سے مشہور ہوگیا ہے اس لیے ماڈل نے اسے "سمو دیا”۔ جب یہ شعر سرچ انجن کے حوالے کیے تو سرچ انجن کا شکاری کتا دس دس دن بعد بھی بھوکا پیاسا واپس آیا۔
کلیدی مسائل اور بہترین طریقے
یہ مانی ہوئی حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں کچھ کلیدی مسائل ہیں جن کا ادراک ہمارے اضطراب اور بڑھتی ہوئی توقعات اور انحصار کے حوالے سے "فیاضی” کو قابو میں رکھنے کے لیے مددگار ہو سکتا ہے۔ جیسے:
من گھڑت حوالہ جات (Hallucination): اے آئی (AI) ماڈل اکثر قابل فہم لیکن مکمل طور پر جعلی حوالہ جات اور اقتباسات پیدا کرتے ہیں جو حقیقی ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہ تعلیمی سالمیت کو بری طرح مجروح کرتا ہے اور اگر انسانی محقق کے ذریعہ حقائق کی جانچ نہ کی گئی تو غلط معلومات کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتی ہے۔
حساس متن کی درستگی اور سیاق و سباق: جب AI مذہبی آیات جیسے حساس مواد کو سنبھالتا ہے، تو اس کے تربیتی ڈیٹا میں غلط تشریح، نظریاتی تحریف، یا موجودہ ثقافتی اور سماجی تعصبات کو تقویت دینے کا ایک اہم خطرہ ہوتا ہے۔ AI میں انسانی سیاق و سباق، روحانی تفہیم، اور ثقافتی اہمیت کا فقدان ہے جو اس طرح کے متن کے درست اور احترام سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
بازیافت اور مستقل مزاجی کا فقدان: AI آؤٹ پٹس اکثر متحرک ہوتے ہیں اور کسی پرامپٹ کے لیے مخصوص جواب کو بعد کی تاریخ میں کسی دوسرے قاری کے ذریعے نقل کرنے یا بازیافت کرنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی، جو مستحکم ذرائع پر مبنی حوالہ کے روایتی اصولوں سے متصادم ہے۔
تصنیف اور جوابدہی: AI کو مصنف یا شریک مصنف نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ یہ کام کی سالمیت، اصلیت یا درستگی کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ انسانی محقق تمام مواد کے لیے مکمل طور پر جوابدہ رہتا ہے، بشمول AI کی طرف سے پیدا کردہ کسی بھی غلطی یا تعصب کے لیے۔
غیر ارادی ادبی سرقہ: اگرچہ AI ماڈل صرف جملوں کو کاپی نہیں کرتے ہیں، لیکن وہ وسیع ڈیٹا سیٹس پر مبنی مواد تیار کرتے ہیں جس میں کاپی رائٹ شدہ مواد شامل ہوسکتا ہے۔ AI سے تیار کردہ مواد کو کافی ریفریجنگ اور مناسب انسانی تصدیق شدہ حوالہ جات کے بغیر استعمال کرنا نادانستہ طور پر سرقہ کا باعث بن سکتا ہے۔
تعصب بڑھانا: انٹرنیٹ سے ڈیٹا پر تربیت یافتہ AI ماڈل موجودہ معاشرتی تعصبات کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ جب مذہب جیسے موضوعات پر لاگو کیا جاتا ہے، تو اس کے نتیجے میں متعصبانہ معلومات ہو سکتی ہیں جو صارف کے تاثرات کو تشکیل دے سکتی ہیں اور یہاں تک کہ سماجی یا مذہبی تقسیم کو بڑھا سکتی ہیں۔
بہترین طریقے (Best Practices)
لہذا، یہ ضروری ہے کہ AI ریسرچ کے لیے بہترین طریقے اختیار کیے جائیں۔ ان مسائل کو کم کرنے کے لیے، تعلیمی ادارے اور ناشرین درج ذیل بہترین طریقوں کی تجویز کرتے ہیں:
انسانی نگرانی ضروری ہے: AI کو ایک معاون آلے کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے، تاکہ انسانی فیصلے، تنقیدی سوچ، اور فکری شراکت کو بڑھانے، بدلنے کے بجائے۔
تمام معلومات کی توثیق کریں: جنریٹیو AI ٹولز کے ذریعہ حوالہ کردہ ذرائع پر بھروسہ نہ کریں۔ ان کے وجود کی تصدیق اور معلومات کا جائزہ لینے کے لیے ہمیشہ اصل، بنیادی ذرائع پر جائیں۔
شفافیت اور انکشاف: ہمیشہ تحقیقی مقالے کے وقف شدہ حصے (مثلاً طریقے یا اعترافات) میں AI ٹولز کے استعمال کا انکشاف کریں۔ اس انکشاف میں ٹول کا نام اور ورژن، جس مقصد کے لیے اسے استعمال کیا گیا تھا، اور اس میں شامل اشارے کی وضاحت ہونی چاہیے۔
مناسب حوالہ: اگر آپ AI سے تیار کردہ متن کا استعمال کرتے ہیں، تو اسے ذاتی مواصلت کے طور پر یا متعلقہ حوالہ طرز گائیڈ (مثلاً، APA، MLA، شکاگو) کے مشورے کے طور پر پیش کریں۔ اگر AI ایک قابل اعتماد، قابل تصدیق اصل ذریعہ فراہم کرتا ہے، تو براہ راست اس ذریعہ کا حوالہ دیں۔
حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والا حساس مواد: تعصب اور نقصان سے بچنے کے لیے حساس معلومات، مذہبی نوعیت کے متن، یا کمزور آبادی سے متعلق ڈیٹا کے ساتھ کام کرتے وقت انتہائی احتیاط اور سخت حقائق کی جانچ کریں۔
اے آئی دستاویز ورک فلو: اگر درخواست کی جائے تو شفافیت اور پیداواری صلاحیت کو یقینی بنانے کے لیے، AI کے ساتھ اپنے تعاملات کا ایک لاگ یا اپنڈکس رکھیں، بشمول درست اشارے اور مکمل تیار کردہ جوابات۔
لیکن، ہمارا پیش کردہ مقدمہ ایک معروف، بڑی تعداد میں حوالہ جات میں استعمال ہونے والے نو ہزار اشعار کے کلام کو بوقت ضرورت مصدقہ انداز سے صارف کو تصدیق کے ساتھ پیش کرنا اور اس کے کام کو آسان کرنا ہے، جو جتنا دیر سے ممکن ہوگا اتنا یہ سہولت فراہم کرنے والوں کی صلاحیت اور ساکھ کے حوالے سے بھی سوالات کا منبع رہے گا۔
اس مسئلے کا حل مضامین میں موجود تمام اشعار کی تصدیق کے لیے مستند کتب جو مستند ویب سائٹس پر مشتمل ہیں، ان سے لازمی گزار کر اس لوپ کو فلٹر کا حصہ بنا لینا اور اس پر خصوصی کام ہے۔ ورنہ تحقیق کے طالبوں اور بہتری کے خواستگاروں کے لیے روایتی تلاش اور وقت کے ضیاع کے سوا چارہ نہیں، کیونکہ سرچ اور ریسرچ کی دنیا میں سند نہ ہو تو دنیا "گھمن” گھیری ہو جائے۔ جو آپ سمجھے ہیں وہی درست ہے
رحم عالی جاہ رحم

مضمون نگار ڈاکٹر ظفر اقبال ہیلتھ کیئر مینجمنٹ، کوالٹی اور مریض کی حفاظت کی تربیت سے وابستہ ہیں۔ اقدار کی بنیاد پر پریکٹس کے فروغ اور اس کی تربیت کے لیے کوشاں ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کے علاوہ اقبالیات، حالاتِ حاضرہ، بین الاقوامی تعلقات، ماحولیات، سیاسی و ادبی شعبہ جات بھی ان کی دلچسپی کے موضوعات میں شامل ہیں۔