افغان باشندوں کی واپسی کے دوران طورخم سرحد بند ہونے سے درپیش مشکلات میں پاکستانی شہری پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کرتے رہے۔اس دوران قیام وطعام سمیت دیگر تمام ضروریات کو مقامی پاکستانی آبادی نے پوراکیا۔
پاک افغان کشیدگی کے بعد11اکتوبر سے طورخم بارڈرکو ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
بندش کے دوران، واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں نے ٹرکوں میں دن گزارے۔ سینکڑوں کی تعدادمیں مختلف مقامات پر سڑک کنارے کھڑے تھے جن میں بچے، خواتین، بزرگ اور بیمار سب موجود تھے۔
مقامی پاکستانی شہریوں نے انسانی ہمدردی کی بنیادپر افغان باشندوں کی دل کھول کرمددی۔عبدالحمیدنامی ایک شخص نے اس بارے میں میڈیاکو بتایاکہ جب وہ اپنے خاندان کے ساتھ طورخم پہنچے تو اطلاع ملی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ کے باعث سرحد بند کر دی گئی ہے۔اسی دوران اہلیہ کو زچگی میں پیچیدگیوں کی وجہ سے کافی بھاگ دوڑ کرنی پڑی،جمرودکے ہسپتال گئے ،وہاں ڈاکٹروں کا رویہ بہت اچھاتھا لیکن چیک اپ کے بعد پشاور جانے کو کہاگیا ۔پشاور میںاہلیہ کا آپریشن ہوا لیکن بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی زندگی سے منھ موڑ گیا تھا۔ علاج، ادویات اور دیگر ضروریات پر تقریبا ایک لاکھ 35ہزار روپے خرچ ہو گئے اورجیب میں صرف 15ہزارباقی بچے۔
عبدالحمیدکا کہناتھاکہ ان حالات میں مقامی لوگوں نے ہماری بہت مدد کی ۔ ایک شخص نے اپنے ایک مکان میں جگہ دی، جہاں بچے رہے اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ہسپتالوں کے چکر لگاتے رہے۔ مقامی لوگوں نے کھانے پینے کی اشیا بھی فراہم کیں۔
طورخم سرحد لگ بھگ 20دن تک بندرہی۔جس کے بعد انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جزوی کھولی گئی تاکہ ملک میں مقیم غیر قانونی افغان شہریوں کی واپسی کا عمل جاری رکھا جا سکے۔
اضا خیل کے مقام پر جہاں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کا دفتر ہے یہاں بڑی تعداد میں ٹرک پہنچے تھے ۔اس علاقے میں ایک اور افغان باشندے عزیز الرحمان کے مطابق ہم لوگوں نے 20دن ٹرکوں میں گزارے اور اس دوران اس علاقے کی پاکستانی کمیونٹی نے مدد کی۔ خوراک اور دیگر ضروریات کے لیے چندہ جمع کیا گیا۔ کوئی چاول لے آیا تو کوئی گوشت اور گھی وغیرہ پہنچا دیتا تھا۔ اسی طرح پانی کی فراہمی کے انتظامات کیے گئے اور علاج معالجے کے لیے ادویات بھی فراہم کی گئیں۔انھوں نے بتایا کہ اس علاقے میں باقاعدہ ایک وقت میں درجنوں دیگیں پکائی جاتیں تاکہ افغان مہاجرین کی خوراک کا انتظام ہو سکے۔
اضاخیل میں ایک سوشل ورکر نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انھوں نے مقامی لوگوںکے تعاون سے پناہ گزینوں کے لیے لگ بھگ 61مکان کرائے پرلے کر ان پناہ گزینوں کے قیام کا بندوبست کیا جو افغانستان واپس جارہے تھے۔ کئی لوگوں نے انسانی ہمدردی کے طور پر اپنے مکان دے دیے ۔ جمرود میں مقیم ان پناہ گزینوں کے لیے ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کے کھانے کا انتظام کیا جاتاور مکانات میں لیٹرین کی سہولت بھی فراہم کی گئی تھی۔
چترال سے جمرود پہنچنے والے گل عالم نے بتایا کہ ان 20دنوں میں مشکلات بہت زیادہ تھیں لیکن مقامی لوگوں نے ہر قسم کا تعاون کیا اور کھانے پینے کا خیال رکھا۔
پاکستان میں افغانستان کے سفیر سردار احمد شکیب نے کئی دن سے سرحد کی بندش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ واپس جانے والے پناہ گزینوں کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔ سردار شکیب نے پاکستانی حکومت سے درخواست کی کہ وہ سرحدوں کو کھول کر پناہ گزینوں کی با عزت طریقے سے واپسی یقینی بنائے۔اس دوران ترکیہ کے شہری استنبول میں فریقین کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے ۔بات چیت کا ایک مرحلہ بے نتیجہ رہا۔30اکتوبر کو میزبان حکومت کی درخواست پر دوبارہ مذاکرات شروع ہوئے ، جس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ فریقین نے سیزفائر کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور نگرانی کا نظام بنانے پر اتفاق کیا ہے، جس پر پیش رفت6 نومبر سے استنبول میں مزید گفت وشنید کے دوران ہوگی۔
اس کے بعد یکم نومبرکوپاکستانی حکام نے پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے طورخم بارڈر کھول دیاتھا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos