فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ میں مہمان پرندے سرکاری میزبانی سے پھر محروم

اقبال اعوان:
کراچی سمیت سندھ کے ساحلی علاقوں میں آئے مہمان سائبیرین پرندوں کی خوراک کے لیے اس بار بھی کوئی بجٹ نہیں رکھا گیا ہے۔ سائبیریا سے آئے پرندے اپنی خوراک زرعی زمینوں پر پائے جانے والے کیڑے مکوڑے اور دریا و تالابوں میں مچھلی کھا کر گزارہ کریں گے۔

ساحلی علاقوں، جزیروں، کریکس، تمر کے جنگلات میں ماہی گیروں نے مہمان پرندوں کا غیر قانونی شکار بھی شروع کر دیا۔ بطخیں اور مرغابی، کڑاہی ڈشوں کی صورت میں فروخت کی جارہی ہیں۔ سندھ وائلڈ لائف کے ڈپٹی کنزرویٹر ممتاز سومرو کا کہنا ہے کہ ان کے لوگ پرندوں کی حفاظت کررہے ہیں۔ ان کی پولیس اطلاع ملنے پر چھاپہ مارتی ہے اور جال جلا کر پرندوں کو آزاد کرا دیتے ہیں۔ گزشتہ سال 5 لاکھ پرندے آئے تھے جن میں بگلے، مرغابی، بطخیں، کونج اور دیگر شامل تھے۔ اب موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد ان کی آمد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ کراچی میں آلودہ ماحول کی وجہ سے آبی پرندے ساحلی علاقوں تک محدود ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ اکتوبر کے آغاز کے ساتھ سائیبرین مہمان پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ طرح طرح کی بولیوں، دلکش رنگوں والے پرندے خوب صورت آوازیں نکالتے نظر آتے ہیں۔ جھیلوں، ساحلی آبادیوں، دریا کے کنارے، تمر کے جنگلات، کریکس، جزیروں پر بسیرا کرتے ہیں۔ چند سال قبل تک ان کے دانے پانی کے اخراجات کے لیے سندھ حکومت بجٹ میں رقم رکھتی تھی کہ جھیلوں پر بالخصوص ان کو ماحول اور دانہ پانی دیا جائے۔ دنیا بھر میں ان پرندوں 8 فلائی روٹ ہیں۔ جبکہ سندھ آنے والے مہمان پرندے روٹ نمبر 4 ایشیا والا استعمال کرتے ہیں اور افغانستان، بلوچستان سے ہو کر کراچی سے بدین، ٹھٹھہ تک جاتے ہیں۔ اب ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور ان آبی پرندوں کی آمد کے ساتھ ساتھ باز بھی آتے ہیں۔

دوسری جانب ماہی گیر آبی پرندوں اور باز کے شکاریوں کے ساتھ زیادہ رقم کے لالچ میں شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح سال بھر خصوصی مافیا تیاری کرتی ہے جہاں اسے کو ساحلی وڈیروں، بااثر افراد، پولیس کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔ وہیں سندھ وائلڈ لائف کے چند کرپٹ اہلکار بھی مل جاتے ہیں۔ اب پرندے اور باز آرہے ہیں اور اکتوبر سے فروری تک ان کی آمد کا سلسلہ ہوتا ہے اور آخری چند روز میں ان کی گنتی کرتے ہیں۔ یہ پرندے زرعی زمینوں اور ساحل پر مچھلیاں پکڑ کر کھاتے ہیں۔

باز پکڑنے والے کنویں کی طرح گڑھا کر کے اوپر گھاس پھوس رکھ کر کبوتر یا دیگر پرندے جو باز پسند کرتے ہیں رکھتے ہیں اور باز اوپر سے نیچے آکر شکار پکڑنے کی کوشش کرتا ہے تو گڑھے میں چلا جاتا ہے۔ جس کو تربیت یافتہ افراد پکڑ کر پنجرے میں ڈالتے ہیں۔ اسی طرح ساحلی علاقوں، جزیروں پر جال لگا کر میگافون والے اسپیکر لگا کر مختلف پرندوں کی آواز کا سائونڈ لگاتے ہیں اور پرندے پکڑتے ہیں۔ بدین، ٹھٹھہ کے علاقے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔

سندھ وائلڈ لائف کے ڈپٹی کنزیور ویٹر ممتاز سومرو نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سائیبرین پرندوں کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ تاہم ان کے سرکاری دانے کا کوئی انتطام نہیں ہے۔ ان کی اپنی پولیس ہے اور ہر ڈویژن میں ان کے اہلکار اور ملازمین موجود ہیں اور نگرانی کررہے ہیں۔ اور جال ضبط کر کے پرندے رہا کرا دیتے ہیں۔ اب ساحلی علاقوں میں بطخیں، مرغابی اور دیگر کی ہوٹلوں پر ڈشیں بنتی ہیں۔ اگر کنفرم ہو جائے تو مقامی پولیس سے مدد لے کر کارروائی کرتے ہیں جبکہ کراچی کی پرندہ مارکیٹوں، بازاروں کی نگرانی کراتے ہیں۔ اس جرم میں مقدمہ درج کر کے جرمانہ کرتے ہیں۔