سپریم کورٹ میں27ویں ترمیم کا تذکرہ

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس سید منصورعلی شاہ کا ایک کیس کی سماعت کے دوران مجوزہ 27ویں ترمیم کا ذکر لے آئے۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ27ویں ترمیم سے پڑھ رہے ہیں یا کہیں اورجگہ سے پڑھ رہے ہیں۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ عوامی مفادکاسوال ہے کہ نہیں۔ میں چیف جسٹس نہیں ، کیس کس بینچ کے سامنے لگے گایہ میں فیصلہ نہیں کرسکتا۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس علی باقرنجفی پر مشتمل 2رکنی بینچ نے جمعہ کے روز کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے پرنسپل سیکرٹر ی اوردیگر کے توسط سے ڈاکٹر خدا بخش دیپر کے خلاف ماضی سے پرفارما پروموشن دینے کے حکم کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔

سندھ حکومت کے وکیل کاکہناتھا کہ عدالتی حکم پر درخواست گزار کوریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل گریڈ19میں ترقی دے دی گئی تھی تاہم درخواست گزار کہہ رہا ہے کہ مجھے 2019کی بجائے2013سے ترقی دی جائے۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ جس دن آسامی پیدا ہوئی اورجس دن سے جونیئر کو ترقی دی اسی دن سے درخواست گزارکو ترقی دے دیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ سیکشن 31دیکھ لیں اور پھر پڑھنا شروع کردیا۔ اس پر جسٹس سید منصورعلی شاہ کاوکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 27ویں ترمیم سے پڑھ رہے ہیں یا کسی اورجگہ سے پڑھ رہے ہیں۔

اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ سندھ سول سرونٹس (پروبیشن، کنفرمیشن اینڈ سنیارٹی)رولز 1975سے پڑھ رہا ہوں۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنا تھی جونہیں کی گئی، فیصلے میں آگیا ترقی دینی تھی، یاکہیں کہ آسامی موجود نہیں تھی۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کادرخواست خارج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست میں کوئی عوامی مفاد کاسوال نہیں۔

بینچ نے عمران بابر جمیل کی جانب سے ملازمت سے برطرفی کے معاملہ پر فیڈرل سروسز ٹربیونل کے فیصلہ کے خلاف دائردرخواست پرسماعت کی۔ درخواست میں انسپیکٹر جنرل آف پولیس ، لاہور اوردیگر کوفریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے مشتاق احمد موہل بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ عوامی مفادکاسوال ہے کہ نہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر انکوائری غلط ہوئی ہے تو انکوائری رپورٹ درخواست کے ساتھ لگانی چاہیئے تھی۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ مجھے کوئی آرڈر نہیں دیا گیا، میرے خلاف کوئی شواہد موجود نہیں۔

اس پر جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ اگرانکوائری رپورٹ میں شواہد موجودہوئے تودرخواست گزارپر بھاری جرمانہ عائد کریں گے۔ بینچ نے محکمے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انکوائری رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے حکم میں لکھوایا کہ اگر شواہد موجود ہوئے تو درخواست گزارپر بھاری جرمانہ عائد کریں گے۔ بینچ نے کیس کی مزید سماعت 25نومبر تک ملتوی کردی۔

جبکہ بینچ نے سراج احمد کی جانب سے ملازمت سے برطرفی کے معاملہ پرپرنسپل سیکرٹری اوردیگر کے توسط سے گورنر پنجاب کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزار نے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکرجذباتی دلائل دیئے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کادرخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پہلے بحال ہونا ہے کہ نہیں، توہین عدالت کی درخواست لے آئے ہیں،د رخواست گزار چیئرمین ڈرگ کورٹ تھے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ دورکنی بینچ کافیصلہ ہے ہم نہیں سن سکتے، تین رکنی بینچ سنے گا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ہم کیس اگلے ہفتے سماعت کے لئے مقررکرنے کی ہدایت کردیتے ہیں۔

وکیل کاجسٹس سید منصورعلی شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کیس اپنے پاس سماعت کے لئے مقررکریں۔ اس پر جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ میں چیف جسٹس نہیں ، کیس کس بینچ کے سامنے لگے گایہ میں فیصلہ نہیں کرسکتا۔ بینچ نے کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے کیس تین رکنی بینچ کے سامنے مقررکرنے کی ہدایت کردی۔

صباح نیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔