عمران خان :
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنمائوں کے خلاف 6 سالہ احتساب تحقیقات کا انتہائی حیرت انگیز انجام سامنے آیا ہے، جس میں ایک ارب 23 کروڑ کا ریفرنس صرف 19 کروڑ تک سمیٹ دیا گیا، جس کے بعد نئے احتساب قوانین کے تحت کم مالیت کی وجہ سے یہ ریفرنس نیب سے ایف آئی اے کو منتقل کردیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق سکھر کی احتساب عدالت میں جمعرات کی صبح جب جج غلام یاسین کولاچی نے فیصلہ سنایا تو کمرہ عدالت میں خاموشی چھا گئی۔ چھ سال سے زیر سماعت وہ مقدمہ، جو کبھی پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید احمد شاہ کے سیاسی مستقبل کے لیے خطرہ سمجھا جاتا تھا، اب نیب کے دائرہ اختیار سے نکل کر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔
یہ فیصلہ نہ صرف ایک بڑے سیاسی مقدمے کی سمت بدلنے والا ہے۔ بلکہ احتسابی نظام کے استحکام پر بھی کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔ یہ وہی مقدمہ ہے جس میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے 2019ء میں الزام عائد کیا تھا کہ خورشید شاہ نے اپنے اہلِ خانہ اور قریبی ساتھیوں کے نام پر ایک ارب 23 کروڑ روپے سے زائد کے اثاثے بنائے۔ نیب کے ریفرنس میں 18 افراد کو نامزد کیا گیا تھا، جن میں خورشید شاہ کی اہلیہ، بیٹے فرخ اور زیرک شاہ، بھتیجے اویس قادر شاہ، اور کئی مبینہ فرنٹ مین شامل تھے۔
ابتدائی طور پر ریفرنس میں کراچی، سکھر، اسلام آباد اور روہڑی کے مختلف علاقوں میں واقع 83 جائیدادوں، 600 ایکڑ زرعی زمین اور 105 بینک اکائونٹس کا ذکر شامل تھا۔ نیب کی دستاویزات میں یہ بھی بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما نے مبینہ طور پر پہلاج مل، لڈو مل، آفتاب سومرو اور عمر جان جیسے فرنٹ مینوں کے ذریعے جائیدادیں خریدیں۔ حتیٰ کہ خورشید شاہ کے زیر استعمال بم پروف گاڑی بھی ایک فرنٹ مین کے نام پر رجسٹرڈ تھی۔ مگر چھ سال کی طویل تفتیش کے بعد کہانی کا منظرنامہ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔
نیب نے تازہ ترین چالان میں تسلیم کیا کہ وہ بیشتر اثاثوں کے ذرائع آمدن، ملکیت اور مالی ریکارڈ سے متعلق شواہد فراہم نہیں کر سکا۔ نتیجتاً ایک ارب 23 کروڑ روپے کی مبینہ کرپشن صرف 19 کروڑ تک محدود کر دی گئی۔ نیب نے یہ موقف اختیار کیا کہ اب چونکہ رقم کم ہے، چناں چہ یہ کیس احتساب آرڈیننس کے تحت ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ اس لیے اسے ایف آئی اے یا اینٹی کرپشن کو منتقل کر دیا جائے۔
گزشتہ سماعت میں عدالت کے روبرو نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ ادارہ اب اس ریفرنس کو مزید آگے نہیں بڑھا سکتا۔ دوسری جانب خورشید شاہ کے وکیل محفوظ اعوان کا کہنا تھا کہ چھ سال تک نیب نے بلاوجہ تفتیشی عمل کو طول دیا اور اب جب کچھ ثابت نہ ہو سکا تو ادارہ یہ مقدمہ کسی اور کے کندھے پر ڈالنا چاہتا ہے۔ ان کے مطابق اگر کیس واقعی ناقابلِ سماعت ہے تو اسے اینٹی کرپشن کو منتقل کیا جائے تاکہ ادارہ خود جانچ کر سکے کہ حقیقت کیا ہے؟
عدالت نے دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور آخرکار گزشتہ روز 6 نومبر کو فیصلہ سناتے ہوئے نیب کا ریفرنس، ایف آئی اے کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔ اس فیصلے نے سیاسی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ ایک وقت میں ’’بڑا کرپشن کیس‘‘ قرار دیا جانے والا ریفرنس محض انتظامی بے ضابطگی کی شکل کیوں اختیار کر گیا؟ خورشید شاہ کا یہ مقدمہ پاکستان کے احتسابی نظام کے طرزِ عمل کی واضح مثال سمجھا جا رہا ہے۔ ابتدا میں نیب نے بلند و بانگ دعوے کیے، میڈیا پر خبریں چلیں اور سیاست میں تہلکہ مچا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقدمے کی بنیادیں ڈھیر ہوتی گئیں۔
تحقیقاتی ذرائع کے مطابق نیب کے ریکارڈ میں شامل 105 بینک اکائونٹس میں سے 92 غیر فعال یا بند نکلے۔ 83 جائیدادوں میں سے کئی کی ملکیت متنازع یا منتقل شدہ پائی گئی۔ اور کئی گواہان کے بیانات ریکارڈ ہی نہیں ہوئے۔ یہ وہ تفصیلات ہیں جنہوں نے نیب کے مقدمے کی بنیادیں کمزور کر دیں۔ ادارے کے اندرونی ذرائع کے مطابق خود نیب کے بعض افسران نے تسلیم کیا کہ اثاثوں کی ابتدائی مالیت کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر ظاہر کیا گیا تاکہ ریفرنس کو بڑا اور نمایاں ثابت کیا جا سکے۔
ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ جب کسی ریفرنس میں چھ سال کی تفتیش کے بعد شواہد کمزور پڑ جائیں تو عدالت کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں، یا تو کیس کسی دوسرے ادارے کو منتقل کیا جائے، یا خارج کر دیا جائے۔ عدالت نے اس موقع پر درمیانی راستہ اپناتے ہوئے اسے ایف آئی اے کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایف آئی اے کے پاس جب یہ کیس پہنچے گا تو وہ اس کے ساتھ کیا کرے گی؟
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر نیب کی فائلیں ادھوری ہوئیں، مالی ریکارڈ نامکمل ہوا یا گواہان کے بیانات دستیاب نہ ہوئے تو امکان یہی ہے کہ یہ کیس چند ماہ میں بند ہو جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے کا دائرہ عام طور پر مالیاتی فراڈ، منی لانڈرنگ یا بینکنگ جرائم تک محدود ہوتا ہے۔ اور اگر وہ غیر قانونی مالی لین دین کے شواہد پیش نہ کر سکی تو یہ ریفرنس انجام کو نہیں پہنچ سکے گا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے لیے یہ فیصلہ بلاشبہ بڑی ریلیف کی حیثیت رکھتا ہے۔ 25 ماہ قید کے بعد وہ 2021ء میں سپریم کورٹ کے حکم پر ضمانت پر رہا ہوئے تھے۔ رہائی کے بعد وہ زیادہ عرصہ سیاسی سرگرمیوں سے دور رہے۔ مگر اب جب مقدمہ نیب سے نکل کر ایف آئی اے کو منتقل ہو چکا ہے، مبصرین سمجھتے ہیں کہ ان کی سیاسی واپسی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ یہ پورا معاملہ اس بڑے سوال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان میں احتساب کا نظام کیا واقعی شفاف اور غیر جانبدار ہے؟ ایک جانب نیب کے قیام کا مقصد بدعنوانی کا خاتمہ بتایا گیا، مگر دوسری جانب سیاسی رہنمائوں کے خلاف شروع ہونے والے زیادہ تر ریفرنسز چند سال بعد ختم یا کمزور ہو جاتے ہیں۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ نیب کی تفتیش کا یہ انداز ’’پہلے گرفتاری، بعد میں شواہد‘‘ اب خود ادارے کی ساکھ کے لیے نقصان دہ بن چکا ہے۔ خورشید شاہ کیس اس رویے کی ایک تازہ مثال ہے، جہاں ابتدائی طور پر اربوں کی کرپشن کا شور اٹھا، مگر انجام پر وہی شور دھیرے دھیرے 19 کروڑ کی رقم میں گم ہو گیا۔
فیصلے کے بعدایف آئی اے ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ احتساب کا نہیں، احتساب کے نظام کا احتساب ہے۔ اب تمام نگاہیں ایف آئی اے پر ہیں، جو یا تو اس کیس کو نئے سرے سے جان ڈال کر چلا سکتی ہے، یا اسے بھی ان بے شمار فائلوں کی طرح الماریوں میں رکھ دے گی جن کا انجام ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے کہ ’’ثبوت ناکافی اورکیس بند ہوگیا‘‘۔ فی الوقت اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ خورشید شاہ کے خلاف یہ ریفرنس، جو کبھی نیب کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا تھا، اب احتساب کی تاریخ میں ایک خاموش مگر معنی خیز انجام کے طور پر درج ہو چکا ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos