فائل فوٹو
فائل فوٹو

ممدانی کی فتح پر ہم جنس پرست بھی نہال

امت رپورٹ :
نیویارک کے نومنتخب میئر زہران ممدانی کے حامیوں کی طرف سے دنیا بھر میں جشن منانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں نیویارک سٹی کے ہم جنس پرست بھی شامل ہیں، جن کے لیے ممدانی بطور میئر ایک مضبوط امید کی کرن ہیں۔ کیونکہ ممدانی شروع سے ہم جنس پرست کمیونٹی ایل جی بی ٹی کیو کے زبردست سپورٹر رہے ہیں اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ میئر منتخب ہوئے تو نیویارک کو ہم جنس پرستوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنادیں گے۔

اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ ذکر کرتے چلیں کہ بھارتی تو اس لیے ممدانی کی کامیابی پر جشن منارہے ہیں کہ نومنتخب میئر کے والدین کا تعلق ان کے ملک سے ہے۔ لیکن اس میں پاکستانی بھی پیش پیش ہیں۔ ممدانی کی تعریف اور مدح سرائی میں پاکستانی سوشل میڈیا اکائونٹس پر سیلاب آیا ہوا ہے۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ ممدانی بھارتی نژاد ہونے کے علاوہ مسلمان بھی ہیں۔ لہٰذا ایک مسلمان کی کامیابی پر دوسرے مسلمان کو یقینا خوش ہونا چاہیے۔ لیکن اس بھیڑ چال میں ہم کسی کو بھی سر کا تاج بنانے سے پہلے ذرا سی بھی تحقیق یا توجہ نہیں دیتے۔ یہی المیہ ہے۔

اس میں شک نہیں کہ ممدانی کے والد پروفیسر محمود ممدانی ایک بھارتی نژاد مسلم ہیں۔ لیکن وہ اتنے ہی مسلمان ہیں، جتنے بالی ووڈ کے سپر اسٹار شاہ رخ خان، جنہوں نے اپنے گھر میں مسجد کے ساتھ مندر بھی بنارکھا ہے یا گیت نگار جاوید اختر، جن کے دین اسلام کے بارے میں کفریہ کلمات عام ہیں۔ ممدانی کے والد ایک سیکولر اور ترقی پسند ادیب کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، جنہوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں۔

ممدانی کی والدہ میرا نائر معروف بھارتی روشن خیال فلم ساز ہیں، جو ’’کاماسوترا‘‘ جیسی بے باک اور متنازعہ فلمیں بنانے کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں۔ خوشی سے نہال پاکستانیوں کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ میئر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں ممدانی نے کسی اسلامی شخصیت یا قائد اعظم کے اقوال کا ذکر نہیں کیا، بلکہ وہ اور ان کا خاندان جواہر لعل نہرو کا دیوانہ ہے۔ چنانچہ بطور میئر اپنی پہلی تقریر میں ممدانی نے کہا ’’جب میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں تو مجھے جواہر لعل نہرو کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں کہ تاریخ میں کبھی ایسا لمحہ آتا ہے جب ایک قوم کی روح جو طویل عرصے تک دبائی گئی ہو، اپنی آواز پاتی ہے‘‘۔ نہرو نے یہ الفاظ انیس سو سینتالیس میں بھارت کی آزادی کی شام قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہے تھے۔

اس میں بھی شک نہیں کہ ممدانی نے غزہ میں بدترین نسل کشی پر جنگی مجرم نیتن یاہو کو للکارا اور اسی طرح گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار مودی قصائی کو بھی لتاڑا۔ لیکن کسی کو اوتار ماننے سے پہلے اس کی شخصیت کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے میئر بن جانے کے بعد اب اگر نیتن یاہو یا مودی نیویارک آتے ہیں تو کیا ممدانی اپنے ان اعلانات پر عمل کریں گے، جو وہ ان دونوں کے لیے اپنی انتخابی مہم کے دوران کرتے رہے ہیں۔

اب ممدانی کی جانب سے ہم جنس پرستوں کی مضبوط حمایت کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ سب ریکارڈ شدہ چیزیں ہیں۔ ان میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی نہیں۔ ممدانی ہم جنس پرستوں کی عالمی کمیونٹی ’’ایل جی بی ٹی کیو‘‘ کے زبردست حمایتی ہیں اور کئی بار اس عزم کا اعادہ کرچکے ہیں کہ وہ نیویارک سٹی کو ایل جی بی ٹی کیو یا ہم جنس پرستوں کے لیے ایک محفوظ شہر بنانا چاہتے ہیں۔ اور وہ نیویارک کے ہم جنس پرستوں کو رہائش، روزگار اور تقریبات کی کھلی آزادی اور ان کا ایک دفتر قائم کرنے کے خواہش مند ہیں۔

رواں برس مئی میں ممدانی نے نیویارک کے ہم جنس پرستوں (ایل جی بی ٹی کیو) کو تحفظ فرہم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر وہ میئر بن گئے تو شہر کو ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنا دیں گے۔ تب ممدانی نے اپنے انسٹا گرام پر لکھا ’’نیویارک شہر کو ایل جی بی ٹی کیو سے وابستہ لوگوں کے لیے ایک پناہ گاہ ہونا چاہیے‘‘۔ اکتوبر میں ممدانی نے ایک اشتہار جاری کیا، جس میں ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ سلویا رویرا کی کہانی بیان کی گئی تھی اور ہم جنس پرست کمیونٹی کو مزید تحفظ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

میئر کے الیکشن سے محض ایک ہفتہ قبل اپنی انتخابی مہم کے دوران ممدانی اچانک بروکلین میں ہم جنس پرستوں کے ایک بار ’’پاپی جوس‘‘ کے پاس رک گئے۔ وہاں انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ایک ایسے شہر میں جہاں بے حد محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے، انجوائے کرنے کے لیے بھی کوئی جگہ ہونی چاہیے‘‘۔ ممدانی کا مزید کہنا تھا کہ انہیں یہ اعزاز مل گیا ہے کہ وہ ’’پاپی جوس‘‘ پر آنے والے پہلے میئر کے امیدوار ہیں۔

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممدانی نے دو ہزار اکیس میں نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے رکن کے طور پر خدمات انجام دینی شروع کی تھیں۔ اپنے پہلے سیشن میں انہوں نے ’’اینٹی لوئٹرنگ قانون‘‘ کی منسوخی کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔ یہ قانون دراصل ایسے ٹرانس جینڈر یا خواجہ سرائوں کے خلاف بنایا گیا تھا، جو عوامی مقامات پر کھڑے ہوکر غیر اخلاقی سودے بازی کر رہے ہوں۔ بطور اسٹیٹ اسمبلی کے رکن کے طور پر ممدانی نے صنفی شناخت ایکٹ کو بھی اسپانسر کیا، جس سے سرکاری دستاویزات پر کسی کے لیے اپنی جنس کو تبدیل کرانا آسان ہوگیا۔ اپنی اس مدت کے دوران وہ اسقاط حمل کے قانونی حق کے بھی زبردست سپورٹر رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔