27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے کی تفصیلات سامنے آ گئی ہیں۔وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی گئی تھی جس کے بعد مسودہ سینٹ میں پیش کردیاگیاہے۔
مسودے کی تفصیلات کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا عہدہ تحلیل کرکے چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ تخلیق کیا گیا ہے،اس کے تحت آرمی چیف تینوں مسلح افواج کے سربراہ ہوں گے ۔
27 نومبر سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کرنے کی تجویز ہے۔فیلڈ مارشل کا عہدہ تاحیات رہے گا۔پاک فوج کے سربراہ چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے،آرمی چیف اور چیف آف ڈیفنس فورس کی تعیناتی وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر کریں گے۔
آرمی چیف وزیر اعظم کی مشاورت سے نیشنل سٹرٹیجک کمانڈ کا سربراہ مقرر کریں گے اور نیشنل سٹرٹیجک کمانڈ کے سربراہ کا تعلق پاکستانی فوج سے ہو گا۔
اب مسلح افواج میں فیلڈمارشل کے علاوہ فضایہ اور بحریہ میں بھی سینیر افسران کو پانچ ستارہ جرنیل کے عہدوں پر ترقی دی جاسکے گی۔فیلڈ مارشل کی مراعات بھی تاحیات ہوں گی۔
وفاقی کابینہ میں 27 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ منظور ہونے کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آرٹیکل 243 میں دفاعی اُمور سے متعلق ترامیم کی تجویز دی گئی ہے جس میں فیلڈ مارشل، نیول اور ایئر چیف کے اعزازی عہدوں کا آئین میں ذکر شامل کرنے کی بھی تجویز ہے۔
اعظم نذیر تارڑ کے مطابق حالیہ پاکستان اور انڈیا کشیدگی سے اہم اسباق سیکھے گئے، اس لیے فیلڈ مارشل، نیول اور اِیئر چیف کے اعزازی عہدوں کو آئین میں شامل کرنے اور قومی ہیروز کو اعزازی ٹائٹلز دینے کی تجویز بھی مسودے میں شامل ہے۔
27ویں ترمیم کے مسودے میں بتایاگیاہے کہ فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمیرل آف فلیٹ کا رینک مراعات اور وردی تاحیات رہیں گے۔
آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جاے گا۔وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے کا اطلاق پاکستان کی تمام عدالتوں سمیت سپریم کورٹ پر بھی ہوگا،سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کا اطلاق وفاقی آئینی عدالت پر نہیں ہوگا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق آئینی عدالت کے سوا ملک کی تمام عدالتوں پر ہوگا۔
آئین کے 49 آرٹیکلز میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔جن میں سے 40 آئینی عدالت سے متعلق ہیں۔وفاقی آئینی عدالت آئینی عدالت 7ججز پر مشتمل ہو گی ۔اسے اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی عدالت میں زیر التوا کیس کا ریکارڈ طلب کر سکے گی۔ آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور آئینی عدالت کے دیگر ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہوگی اور اس میں سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس کے اختیارات واپس لینے کی تجویز بھی شامل ہے۔
صدر وزیراعظم کی سفارش پر موجودہ سپریم کورٹ کے ججوں میں سے وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تعیناتی کریں گے ۔ جج کا پاکستانی شہری ہونا لازمی قرار دینے اور وفاقی آئینی عدالت کے جج کیلئے 68 سال عمر کی حد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔
آئینی عدالت میں 20سال وکالت کا تجربہ رکھنے والا وکیل جج بننے کی اہلیت رکھ سکے گا۔
آئینی بینچز میں زیر سماعت مفاد عامہ کے تمام مقدمات خودبخودوفاقی آئینی عدالت میں منتقل ہو جایں گے۔ججز کے حلف میں بھی تبدیلی کی تجویز شامل ہے۔حلف میں آئینی عدالت کے ججز کیلئے سپریم کورٹ کی بجائے وفاقی آئینی عدالت کا نام شامل کرنے کی تجویز ہے۔
وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کے کسی جج کو مشترکہ طور پر 2 سال کیلئے نامزد کر سکتی ہے۔
وفاقی آئینی عدالت دو وفاقی اور صوبوں حکومتی کے مابین تنازعات کا مقدمہ سننے کی مجاز ہوگی، صدر مملکت کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت بھی آئینی عدالت کرنے کی مجاز ہوگی۔آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مدت تین سال رکھنے کی تجویز ہے، اس کی مستقل نشست اسلام آباد میں ہو گی۔
جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی جاے گی۔ سپریم کورٹ اور فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کے سینئر ججز شامل ہوں گے۔ججز کے تبادلے کا اختیار سپریم جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا ہے، ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا تبادلہ نہیں کیا جا سکے گا۔
صدر مملکت ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کو جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر ٹرانسفر کرنے کے مجاز ہونگے، ہائی کورٹ سے ججز کے تبادلے کی صورت میں متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے ممبران ہوں گے۔ٹرانسفر ہونے والا جج دوسری عدالت کے چیف جسٹس سے سنیئر نہیں ہوگا، ٹرانسفر سے انکار پر جج کو ریٹائر کر دیا جائے گا،ریٹائرمنٹ کی صورت میں مقرر مدت تک کی پنشن اور مراعات دی جائیں گی۔
وفاقی آئینی عدالت کا جج بننے سے انکار پر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کا متعلقہ جج ریٹائر تصور ہوگا۔
بلوچستان اسمبلی کی نشستوں ،صوبائی کابینہ کے حجم اور مشیران کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ سینیٹ انتخابات ایک وقت میں کرانے کی ترامیم بھی تجویز کی گئی ہیں۔
جو ترامیم مجوزہ ڈرافٹ سے نکال دیں گئی ہیں ان میں این ایف سی، آبادی، تعلیم، صحت کے شعبوں کی وفاق میں واپس منتقلی شامل ہے، ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے اختیارات سے متعلق شقیں بھی نکال دی گئیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos