
تحریر :- امجدبٹ (مری)
اِنسان نسیان کا پُتلا ہے، بھُول جانا کی اِس کی سرِشت میں شامِل ہے، غلطی کرنا اِس کی پُرانی عادت ہے اور گمراہی اِس کے خمیر میں داخل ہے۔ جب اِنسان بھُول جاتا ہے تو خُدائے ذُوالجلال اِس کی راہنمائی کیلئے ایسے افراد بھیجتا ہے جو صحیح راہ کی نشاندہی کرتے اور منزل کی سمت کا تعیّن کرتے ہیں۔ یہ سِلسِلہ آدمؑ سے آنحضرت ﷺتک وحی اور اِلہام کے ذریعے جاری رہا۔ خدائے قُدوس نے حسبِ ضرُورت ہر قوم ، مُلک اور ہر علاقے کی طرف انبیاءِ کرام اور رسولانِ عظام کو مبعُوث فرمایا۔ رُشد و ہدایت کے اِن ستاروں نے بھُولے اِنسان کی راہنمائی کے کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔
یہ دور سائنسی دور نہ تھا ، کاغذ و کتاب اور پریس کا وجود نہ تھا۔ رسل و رسائل اور مواصلات کے ذرائع مفقود تھے، اِنسان گروہوں اور قوموں میں بٹا ہُوا تھا، پُوری اِنسانیت کے لئے ایک اور مُشترِک پیغام کا تصوّر تک مُمکِن نہ تھا۔ اِس لئے آنحضرتﷺ تک کا دور علاقائیت کا دور تھا۔ ایک علاقے میں ایک نبی، ایک رسُول اور ایک مُصلح آتا، رُشد و ہدایت کے چراغ جلاتا، ضلالت وگمراہی کے بادل چھَٹتے لیکِن دُوسرا عِلاقہ اِن چراغوں کی لَو سے محرُوم رہتا اور پھِر جلد ہی یہ چراغ بھی گُل ہو جاتے۔
آنحضرتﷺ سے ایک نئے دورکا آغاز ہوتا ہے۔ اِس دور کو اِنسانیت اور اِفادیت کا دور کہا جاتا ہے اب ہدایت کا جو سُورج طُلُوع ہُوا تو اُس کی روشنی مشرق و مغرب اور شمال و جنوب چہار دانگِ عالم میں ہر طرف پھیل گئی اور اِس کے ساتھ ہی ساتھ سائنس کی ترقّیات کے دروازوں کے کھُل جانے کے باعث اِس نئے اور عالمگِیر پیغام کی اشاعت کے ساتھ ساتھ حِفاظت کی صُورتیں بھی پیدا ہو گئیں یعنی خُدا کی آخری کِتاب بجائے پتھروں اور پتوں پر لکھے جانے کے دِلوں پر لِکھی جانے لگی۔آنحضرت ﷺ کے دور میں ہی ایسی جماعتیں تیار ہوگئیں جِنہیں خُدا کے آخری پیغام کا ایک ایک لفظ ازبر تھا اور کُچھ عرصہ بعد اور پریس کی اِیجاد نے قُرآنِ کرِیم کی اشاعت اور اِس کی حِفاظت کی دُوسری صُورت پیدا کر دی۔
حاصلِ کلام یہ کہ آپ ﷺ کے بعد وحی اور اِلہام کا سِلسِلہ موقُوف ہوگیا۔ اب ایسے اصحابِ بصِیرت اور روشن فِکر اصحاب کا دور شُروع ہُوا جو قرآنِ کریم کی ہدایت کی روشنی میں بھُول جانے والوں کی راہ نمائی کرتے اور صراطِ مُستقِیم سے مُنحرف ہو جانے والوں کو درُست سمت میں پھیرنے کا عظِیم کام سرانجام دے سکتے ہیں۔
اِس مُختصر مقالے میں گُزشتہ چودہ صدیوں کے دوران اِصلاحِ احوال کرنے والے خدا رسِیدہ دانِشوروں کی فہرست پیش نہِیں کی جا سکتی وگرنہ بات اپنے موضُوع سے ہٹ جائے گی۔ ہمارے اپنے دیس میں ہزاروں اصحابِ فکر گزرے ہیں۔
کہِیں شاہ ولی اللّٰہ دہلوی ؒ ہیں تو کہیں داتا گنج بخش ؒ ، کہِیں علی گڑھ والوں کا قافلہ ہے تو کہِیں شہدائے بالاکوٹ کا کارواں، کہِیں جمال الدین افغانی ہیں تو کہِیں مِسٹر جناح۔ اِن میں سے ہر ایک نے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں۔ کسی نے اِصلاحِ فکر پر زور دِیا تو کِسی نے دعوتِ اِتحاد و یگانگت کی طرف راہنمائی کی، کِسی نے تعلِیم میں پسماندگی دُور کرنے پر جان کھپائی تو کِسی نے سیاسی سوچ کو اُجاگر فرمایا۔
جناب ڈاکٹر علامہ اِقبالؒ اِنہی روشن فِکر اصحاب میں سے ایک ہیں بلکہ کئی اعتبار سے راہنماؤں کے بھی راہنماء نظر آتے ہیں۔ اِقبالؒ کا زمانہ اورآپ کا دور تیرہویں صدی ہِجری کا نصف اور چودھویں صدی ہِجری کا پہلا نصف ہے۔ یہ زمانہ یورپ کے اِقتدار کا زمانہ تھا۔ یونین جیک ساری دُنیا پر لہرا رہا تھا اور بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ برطانوی اِقتدار پر سُورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اپنے دیس میں مُسلم باعثِ رسوائیِ پیؑمبر تھا، فِرقہ بندی تھی کہِیں اور کہِیں ذاتیں، مُسلمان سیّد ، افغان اور مُغل تھا لیکن مُسلمان نہ تھا۔ غرض مُسلمانوں کی حالت ناگُفتہ ہو رہی تھی۔ عرب عجم کے خیالات میں راہ گم کر چکا تھا اور اِنسانیت شعُوب و قبائل میں بٹ کر ہلاکت کے گڑھے کے کنارے کھڑی تھی۔ یورپ مادی ترقّی میں آسمانوں پرکمندیں پھینکنے کی تیّاری کر چُکا تھا۔ مشرق احساسِ خُودی سے محرُوم خوابِ غفلت میں بے خبرسویا ہُوا تھا۔ اِن حالات میں علامہ اِقبالؒ نے خُداداد صلاحیتوں سے کام لے کر اپنی فِکر کے چراغوں کو جلانا شُروع کیا اور پھِر چراغ سے چراغ جلنے لگا۔ چہار اطرافِ عالم میں روشنی نمُودار ہونے لگی، مشرق بیدار ہُوا ، گراں خواب چِینی سنبھلنے لگے، ہمالہ کے چشموں میں جوش و خروش کی کیفیت پیدا ہوئی، برِصغیر کی سر زمِین پر بیداری کی صُبح طُلُوع ہوئی، یورپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، رُوس میں ایک نئے نظام کی داغ بیل ڈالی گئی۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سب کُچھ صِرف اور صِرف فِکرِ اِقبالؒ کا نتِیجہ ہے تاہم یہ ضرُور عرض ہے کہ اِس تبدیلی میں اِس مردِ قلندر کی سوچ اور کوشش کا خاصہ حِصّہ ہے۔ آخر کوئی وجہ ضرُور ہے کہ اِقبالؒ کی فِکر سے مِلتی جُلتی فِکر ، اُس کے اشعار سے ہم آہنگ اشعار اور اُس کے خیالات کی طرح کے خیالات ساری دُنیا میں پھیل رہے ہیں۔
راقم کے پاس جاپان سے ”OOMOTO“ نامی ایک رسالہ آتا ہے۔ یہ رسالہ عالمی زبان اسپرانتو میں شائع ہوتا ہے۔ اِس کے ماتھے پر لکھا ہوتا ہے۔
”DIO HOMO KAJ TERO ESTAS UNU“
یعنی خُدا ایک ہے تو اِس کی مخلُوق اولادِ آدم بھی ایک ہے اور یہ زمِین جس پر اِنسان ہے یہ بھی ایک ہے گویا توحِید کا تصوّر اور وحدتِ اِنسانیت کا سبق جو اِسلام نے دِیا تھا وہ جاپان سے بھی دِیا جا رہا ہے اور آپ بہتر طور پرجانتے ہیں کے جاپان کے لوگ اپنے آپ کو سُورج دیوتا کی اولاد خیال کرتے ہیں اور اپنے بادشاہ ہِیروہِیتو کو خُدا کا اوتار مانتے ہیں ۔ وہ اِس غلط فہمی میں مُبتلا تھے کہ ساری دُنیا کے اِنسان اُن کی نوکری چاکری کیلئے ہیں لیکِن آج اِسی جاپان سے” UNU DIO "کے ساتھ UNU HOMO”
کی آواز بھی بُلند ہورہی ہے یعنی دُنیا کے اِنسان برابر ، آپس میں بھائی بھائی اور ایک ہیں۔ ذراغور فرمائیں تو یہ قُرآنِ کرِیم کی آواز کو سہارا بنایا گیا ہے ”کان الناس امتہ واحدۃ“ اور اِس عالمی زُبان اسپرانتو کے ایک دُوسرے رسالے جو بلغاریہ سے شائع ہوتا ہے میں، میں نے یہ جُملہ دیکھا تھا :
”SOCIO ESTAS UNU HOMARO“
یعنی تمام اِنسان ایک برادری اور انجُمن ہیں۔ آخر یہ خالص قُرآنِ کرِیم کی تعلِیم مشرق ومغرب کے ان غیر مُسلم مُلکوں میں کیسے پہنچ گئی۔ میں سمجھتا ہُوں کہ اِسلام کی آواز اِقبالؒ کے اشعار اور اُن کے تراجم کے ذریعے دُنیا میں پھیلی۔ آج دُنیا کی چالیس بڑی زبانوں میں کلام اقبال کے تراجم دستیاب ہیں۔ اِقبالؒ کے فلسفۂِ انسانیت ”آدمیت۔۔۔۔واقف شواز مقامِ آدمی“
کی ان تراجم کے ذریعے دُنیا کی بہت سی درسگاہوں اور یُونیورسِٹیوں میں فِکرِ اِقبالؒ کے عُنوان کے تحت تدرِیس کا اہتمام موجُود ہے۔ آخر کوئی تو وجہ ہے کی چِین کے اِنقلاب سے سال ہاسال پہلے اِقبالؒ نے کہہ دِیا تھا۔
”گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے“
اور خلائی دور کے آغاز سے بہت عرصہ پہلے اِقبالؒ نے بتا دِیا تھا
”تہی زِندگی سے نہِیں یہ فضائیں "
اور فرمایا تھا:
”سِتاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“
میں یقین کرتا ہوں کہ علامہ اِقبالؒ محض شاعر نہ تھے بلکہ آپ اِلہامی فِکر کے مالک عظِیم مُفکّر تھے۔ آپ نے اپنے آئینہ اِدراک میں آنے والے دور کی تصوِیر دیکھ لی تھی۔ آپ کے کلام نے مسلمانوں میں احساسِ خُودی پیدا کیا، اقوامِ مُتّحدہِ مشرق کو بیداری کا پیغام دِیا اور ساری دُنیا کے سامنے اِسلام کا امن پرور فلسفہ پیش کِیا۔
ہم نے اِس مردِ قلندر سے اِنصاف نہِیں کِیا ہم نے اِس کے کلام کو پھیلانے اور اِس کے پیغام کو عام کرنے میں مُجرمانہ کوتاہی کی ہے۔ میں جب دیکھتا ہوں کے عالمی زبان اسپرانتو میں چِین کے ”ماؤ“ ویت نام کے ”ہوچی منہ“ بھارت کے ”ٹیگور“ و ”گاندھی“ اور یورپ کے کم وبیش تمام اہلِ فِکر پر جامع اور مُفصّل کُتب موجُود ہیں لیکِن اِقبالؒ کی سوانح حیات پر کوئی کِتاب نہیں تو سرکاری اور نِیم سرکاری اِداروں اور انجُمنوں پر افسوس کرتا ہوں جو اِقبالؒ کے نام پر پیسہ تو لیتی ہیں لیکِن کام نہیں کرتیں۔ یہ بات درُست ہے کہ اِقبالؒ سیالکوٹ میں پیدا ہُوا تھا اور آج لاہور میں مدفُون ہے لیکن اِقبالؒ صِرف ہمارا نہِیں ساری دُنیا کا شاعر تھا۔ یہ خُدا کا عظِیم احسان ہے کہ اُس نے اس شاعر اور مُفکّر کو ہمارے مُلک پیدا کِیا اور ہمیں یہ عِزّت بخشی کہ ہم اِقبالؒ کو” اِقبالؒ لاہوری” یا پاکِستان کا قومی شاعر کہیں لیکِن اِس اعزاز کا تقاضا ہے کہ اِقبالؒ کے پیغام کو ساری دُنیا تک پہنچائیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اِقبالؒ کے اشعار اور اُن کی کِتابوں کے تراجم اور اُن کی شرحیں مُختلِف زُبانوں میں لِکھیں ۔ اگر ہم نے ایسا نہ کِیا تو خُدا کی دی ہوئی نعمت کا کُفران اور امانت میں خیانت کا اِرتکاب ہو گا۔
زُبان کی حد تک تو اِقبالؒ کو اپنا کہنا اور اُس کے نام پر جلسے کرنا اور انجُمنیں قائم کرنا آسان ہے لیکن کام کرنا مُشکِل ہے ۔
”نشہ پِلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزہ تو تب ہے کہ گِرتوں کو تھام لے ساقی“
دورِ جدید کے دانِشوروں نے اپنے محدُود عِلم اور مخصُوص نقطۂِ نظر کے باعث حضرت علامہ اِقبالؒ کو نہ صِرف گوئٹے، ہیگل، نیٹشے، مارکس اور کانٹ جیسے مغربی مُفکّرِین کا فِکری پیروکار ثابت کرنے کی سعئی ناکام کی ہے بلکہ اُنہیں جمہوریت، سوشلزم، کمیونزم، آمریت اور سرمایہ داری کا حامی اور مخالف ثابت کرنے کے لیے فتوے جاری کرتے رہے ہیں۔ہمارے مُعاشرے کے نام نہاد دانِشوروں کا شُروع ہی سے یہ وطِیرہ رہا ہے کہ وہ اپنی فِکری خواہشات و ترجیہات کو عام کرنے کے لیے پیغمبروں تک سے منسُوب کرنے کی بددیانتی کرتے آئے ہیں تو علامہ اِقبالؒ اس فتویٰ گری سے کیسے بچ سکتے تھے البتہ علامہ نے ہر موقع پر ایسے غلطی ہائے مضامِین کی تردِید کی ہے اور قُرآنی دلائل سے ثابت کِیا کہ ’’ مُجھے فِطری اور آبائی رُجحانات کو ترک کرنے کے لیے ایک خوفناک دماغی اور قلبی جہاد کرنا پڑا “۔ نتیجتاً اُنہوں نے اپنے والد کی دو نصیحتوں کو زندگی کا حِصّہ بنا لیا ایک تو یہ کہ ” جب تُم قُرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ قُرآن تمہی پر اُترا ہے یعنی اللّٰہ تعالیٰ خُود تُم سے ہمکلام ہے“ اور دُوسرا یہ کہ ” میری محنت کا مُعاوضہ یہ ہے کہ تُم اِسلام کی خِدمت کرنا “
ایک جگہ اپنی نظم میں نبی اکرمﷺ سے مُخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ” اگر میرے دِل کے کِسی گوشے میں ایمان و اعتقاد کی کھوٹ کا ذرّہ بھی موجُود پائیں اور اگر میرے الفاظ میں قُرآنی تعلِیمات کے عِلاوہ کُچھ دِکھائی دے تو اے میرے پیارے نبیﷺ یومِ حِساب کے وقت تمام عالمِ اِنسانیت کے سامنے خوار و رُسوا کر دینا اور میرے لیے اِس سے بڑھ کر رُسوائی کیا ہو گی کہ آپ اپنے پائے مُبارک پر بوسہ دینے کی لذّت سے محرُوم کر دیں”۔
میرے مُسلمان بھائیو اور بہنو ! اگر ہمیں اِس لذّت سے محرُوم ہونا پڑ جائے تو ہماری بدنصِیبی کی کیا اِنتہاء ہو گی؟ اب ذرا غور فرمائیں کہ اِقبالؒ جیسے عاشقِ رسُول نے یہ جُملہ ” بے نصِیب از بوسۂِ پا کن مرا“ کِس اضطراری کیفیت میں کہا ہو گا؟
اِقبالؒ نے جا بجا ہمیں یہ باور کروانے کی کوشِش کی ہے کہ پیغمبرانِ باری تعالیٰ نے تو بیت الحرم کو ہر قِسم کے بُتوں سے پاک کر دِیا تھا لیکِن اُن کے پیروکاروں نے آج بھی فِکری اور شخصِیّت پرستی کے بُتوں سے اپنی اپنی زِندگی کے حرم کو آلُودہ کر رکھا ہے اور ہمارا مذہبی پیشوا ہی اُن میں شہسوار ہے۔ اِقبالؒ فرماتے ہیں:
” شیخِ ما از برہمن کافرِ تر است
زا نکہ اُو را سومنات ا ندر سر است“
یعنی ہمارا شیخ تو برہمن سے بھی بڑا کافر ہے کیُونکہ سومنات اُس کے سر میں موجُود ہے۔ اِقبالؒ نے زِندگی کے ہر گوشے کو قُرآنی تعلِیمات سے ہم آھنگ کر لیا تھا یہاں تک کہ اُن کے صوتی آھنگ کا ماخذ بھی قُرآن ہے:
فِطرت کا سرُودِ ازلی اس کے شب و روز
آھنگ میں یکتا صفتِ سورتِ رحمن
اِقبالؒ اپنی دُور رس نِگاہ سے قُرآنِ حکِیم کو آنے والی نسلوں کا ضابطۂِ حیات قرار دے رہے ہیں۔ ”تشکیلِ جدیدِ الہیات“ میں فرماتے ہیں ” جس قدر اِنسان کا ذوق اور اخلاق و روحانیت ترقّی کرتے جائیں گے اُسی قدر اِس پر قُرآنی مطالب آشکار ہوتے جائیں گے“ اور کہتے ہیں کہ ” قُرآنِ کرِیم کا حقِیقی مقصد تو یہ ہے کہ اِنسان اپنے اندر گوناگُوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعُور پیدا کرے جو اِس کے اور کائنات کے درمیان قائم ہیں۔ وہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ
” چیست قُرآن خواجہ ر ا پیغامِ مرگ
دستگیرِ بندۂِ بے سازومرگ “
یعنی قُرآنِ حکیم وڈیروں، ظالموں اور اِستحصالی قُوّتوں کے لیے پیغامِ موت اور بے سہاروں کامدد گار ہے۔ اِقبالؒ کے مُطابق قُرآنِ کرِیم کا مطمع نظر اس کائنات کی جانچ پڑتال کے بعد اس کو اِنسانی فوائد و خِدمات کے لیے مُسخّر کرنا ہے یعنی
’’ فقرِ قُرآن احتسابِ ہست و بُود “
اور ایسے سینے جن میں قُرآن تو ہے لیکن تسخیرِ کائنات کا جذبہ اور گرمی موجُود نہِیں اُن سے بہتری کی کیا اُمید کی جا سکتی ہے؟
” سینہ ہا از گرمیِ قُرآن تہی
از چنیں مرداں چہ اُمید بہی “
البتہ جو راہزن تھے وہ قُرآنی تعلیمات کے باعث تہذیب و تمدّن میں دُنیا کے راہنما بن گئے۔
” راہزنان از حفظ اُو رہبرشُدند
از کتابِ صاحبِ دفتر شُدند “
اِقبالؒ قُرآنِ کریم کی حقانیت کو کِس خُوبصُورت پیرائے میں تسلِیم کرتے ہیں کہ قُرآنِ حکِیم ہر فرسُودہ اور بوسِیدہ دورِ حیات میں ایک عہدِ نو کی راہ دِکھاتا ہے۔
” چُوں کہن گردو جہانِ در برش
می دہد قُرآن جہانِ دیگر ہش“
اِقبالؒ دُوسرے خُطبے میں کہتے ہیں ”قُرآن مجید کی رُو سے کائنات میں اِضافہ مُمکِن ہے۔
یعنی
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کُن فیکُون
کتابیات:۔ درسِ قُرآن (پروفیسر علامہ مضطر عباسی) ادبی مضامین (جمیل یوسف)
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos