بی بی سی ٹی وی پربرطانیہ میں ہیٹ ویو پرایک رپورٹ نشر ہورہی ہے، نیوزکاسٹرحاملہ لوگوں کا لفظ بولنے کے بعد فوراًہی اسے درست یا مستردکرکے،بھنویں اچکاتے ہوئے اس کی جگہ خواتین کا لفظ اداکرتی ہیں۔ایسا دوبار ہوتاہے۔
معاملے پر ادارے کا شکایات یونٹ حرکت میں آتاہے او ر مارٹین کروکسال کے خلاف غیر جانب داری کے قوانین کو پامال کرنے کا الزام لگاتاہے۔شکایات یونٹ نیوزکاسٹر کے چہر ے کےتاثرکو ذاتی رائے کا اظہار قراردیتاہے۔
یہ سرزنش بی بی سی کے سینئر صحافیوں میں اشتعال پیداکرنے کا باعث بن گئی، ادارے کے باس ٹم ڈیوی سےنیوزروم کی اس بغاوت کےدوران استعفے کا مطالبہ کیا گیاہے۔ساتھ ہی یہ بھی کہا جانے لگا کہ صف اول کے برطانوی میڈیا ہائوس پر ٹرانس جینڈزنے قبضہ کرلیا ہے۔
بی بی سی کے ایک اور ذریعے نے اخبار کو بتایا ہے کہ اس یونٹ میں کچھ لوگ اس امرپر یقین رکھتے ہیں کہ جنس بائنری (دوطرفہ)نہیں ۔نیوز روم کے اندر شبہ ہے کہ یونٹ کا کوئی شخص، یاشاید ایک سےزیادہ، اس نکتہ نظر کی مہم چلارہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق نیوز روم میں رپورٹرز کا ایک گروپ اس طرح کی کوریج میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔
تنازع نے ایگزیکٹو کمپلینٹس یونٹ کو ختم کرنے کی آوازوں کو ہوا دی ہے۔اس یونٹ کے سربراہ تجربہ کار ایگزیکٹو فریزر اسٹیل ہیں، وہ 1990 کی دہائی کے وسط سے بی بی سی میں شکایات کی جانچ کرتے آرہے ہیں۔
برطانوی اخبار ’’ میل آن سنڈے‘‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ کروکسال کے ساتھی براہ راست ڈائریکٹر جنرل کویہ شکایت کرنے جارہے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہواہے، اور وہ انہیں بتائیں گے کہ شکایات یونٹ بالکل پاگل ہوچکاہے،لہذا اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔
سنڈے آن میل کا ذرائع کے حوالے سے کہنا ہے کہ نیوز روم اورارباب اختیار میں بڑھتی رسہ کشی کے درمیان یہ سینسر بی بی سی کے لیے ایک ‘ٹرننگ پوائنٹ ہے۔کیوں کہ نیوزروم صرف ٹم ڈیوی ہی نہیں بلکہ چیئرمین اور چیف ایگزیکٹوکےمستعفی ہونے کابھی تقاضاکر رہاہے۔
‘ایک ذریعے نے بتایا کہ معاملہ نیوز روم کے لیے ناقابل یقین ہے۔صحافیوں کا کہناہے کہ نیوزکاسٹرنے صرف ایک لفظ کہا جو آٹوکیو سے مختلف تھا، اس نے اپنی آنکھیں نہیں گھمائیں،صرف اپنا چہرہ ہلایا۔کیا اب خبریںپیش کرنے والوں کو اپنا چہرہ ہلانے کی بھی اجازت نہیں ؟
اخبار نے لکھاہے کہ حاملہ لوگ کا جملہ اسکرپٹ میں ایک جونیئر پروڈیوسرنے لکھا تھا۔ نیوز ریڈرز اکثر غیر مناسب الفاظ کو تبدیل کر دیتے ہیں اور وہ ایساکرتے ہوئےناظرین کو یہ محسوس نہیں ہونے دیتے کہ وہ آٹوکیو سے ہٹ گئے ہیں۔
نیوزروم کا موقف ہے کہ اگر یہ مارٹین کے ساتھ ہو سکتا ہے تو یہ ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔مارٹین کروکسال کے ساتھ اس برتائو نے ان کے ساتھیوں کو ناراض کردیاہے۔
کروکسال کو اپنے ساتھیوں کی پوری حمایت حاصل ہے۔ کروکسال کے مینیجر نے نیوز ریڈر کو شکایات یونٹ کی جانب سے ان کے خلاف نتائج سے آگاہ کرچکا ہے،تاہم اخبارنے اس تاثر کا اظہار کیا ہے کہ انہیں باضابطہ سرزنش نہیں کی گئی۔
کروکسال 1991 سے بی بی سی کے ساتھ ہیں اور نومبر 2015 کے پیرس حملوں پر نشریات کی مرکزی پیش کار تھیں۔2021میں ڈ یوک آف ایڈنبرا پرنس فلپ کی موت کی خبر بھی انہوں نے پڑھی تھی۔
اخبار نے بتایاہے کہ بی بی سی نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos