فائل فوٹو

رفح میں اسرائیلی زیرقبضہ علاقہ حماس کی مزاحمت کا نیامرکز

جنوبی غزہ میں رفح شہرکو فلسطینی جنگ جو تنظیم حماس نے مزاحمت کا نیا مرکز بنالیاجس کے بعدجنگ بندی کے حوالے سے واشنگٹن میں ایک نئی پریشانی پیداہونے لگی ہے۔

اسرائیلی کنٹرول کےاس علاقے میں سیکڑوں مزاحمت کار سرنگوں کی آڑ لے کر صیہونی فوج پر حملے کررہے ہیں۔ ا ن کارروائیوں میں اب تک 3اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔

مصری ثالثوں نے تجویز دی ہے کہ محفوظ راستے کے بدلے رفح میں موجود جنگجو اپنے ہتھیار مصر کے حوالے کریں اور وہاں موجود سرنگوں کی تفصیلات فراہم کریں تاکہ انہیں تباہ کیا جا سکے۔تاہم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈزنے اس مطالبے کو سختی سے مستردکردیا۔

اس گروپ کا کہناہے کہ ہتھیار ڈالنے اور خود کو حوالے کرنے کا تصور القسام بریگیڈز کی لغت میں موجود نہیں۔ گروپ کا مزید کہنا تھاکہ ثالثوں کو جنگ بندی کا تسلسل یقینی بنانے اور دشمن کو بے بنیاد بہانوں سے اس کی خلاف ورزی کرنے اور غزہ میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے سے روکنے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔

القسام بریگیڈزنےاسرائیل کو جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بیان کے مطابق رفح میں موجود جنگجو اپنا دفاع کر رہے ہیں۔

جنگ بندی کے بعد سے رفح کے علاقے میں ،ییلولائن کے اندر، اسرائیلی فورسز پر کم از کم دو حملے ہو چکے ہیں۔

رفح میں مزاحمت کاروںکے لیے ہتھیار چھوڑنے اور خود کو حوالے کرنے کی تجویزحماس کو غیر مسلح کرنے کی کوششوںکا نکتہ آغاز بنتے دیکھی جارہی ہے ۔اعلیٰ سطح امریکی حکام نے مبینہ طور پر اسرائیل کو آگاہ کیا ہے کہ یہ صورت حال غزہ میں حماس کو غیر مسلح کرنے کے لیے’’پائلٹ پروجیکٹ‘‘ کے طور پر کام کر سکتی ہے۔

ساتھ ہی امریکیوں نے اس پہلوسے بھی خبردارکیا ہے کہ اگر اسرائیل حماس کے مزاحمت کاروں کو نکلنے کی اجازت دینے کی تجویز کو مسترد کرتا ہے اورانہیںمارنے یا گرفتار کرنے پر اصرار کرتا ہے، تو یہ غزہ کی پٹی میں حماس کے دیگر تمام ارکان کے لیے پیغام ہوگاکہ اسرائیل ان سے رعایت نہیں کرے گا، چاہے وہ ہتھیار ڈال دیں ، اوران کے پاس لڑائی میں واپس آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔

حماس رہنما اسماعیل رضوان کے مطابق ثالثوں کو آگاہ کر دیا گیاہے کہ وہ اپنی فورسز کو اسرائیلی فو ج کے زیرکنٹرول علاقوں میں موجود اپنے جنگجوؤں کو واپس بلانے کے لیے تیار ہے۔تاہم اسرائیلی سرکاری میڈیا کے مطابق تل ابیب کا فی الحال رفح میں موجود مزاحمت کاروں کو جانے کی اجازت دینے کا کوئی ارادہ نہیں ۔

اسرائیل کا کہناہے کہ اگر وہ ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو ہم انھیں قتل نہیں کریں گے؛ انھیں گرفتار کر کے اسرائیل میں پوچھ گچھ کی جائے گی۔

گزشتہ ہفتے مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وِٹکوف نے کہا تھا کہ یہ مسئلہ غزہ میں وسیع تر جنگ بندی منصوبے کے اگلے مراحل کے لیے ایک آزمائشی قدم ثابت ہو گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس مسئلے کو جنگجوؤں کے لیے محفوظ راستہ فراہم کر کے حل کیا جا سکتا ہے، تاکہ وہ غزہ کے ان علاقوں میں منتقل ہو سکیں جو حماس کے کنٹرول میں ہیں۔

جنگ بندی معاہدے کے اگلے مرحلے میں کثیر القومی فورس تشکیل پائے گی، جو بتدریج اسرائیلی فوج کی جگہ غزہ میں سیکورٹی کے فرائض سنبھالے گی۔

دو ترک حکام نے بتایاہے کہ کہ ترکیہ بھی اس معاملے میں ثالثی کر رہا ہے۔

جنگ بندی معاہدہ شروع ہونے کے بعد سے حماس نے 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا تھا ۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی ہلاک 28اسرائیلیوں کی باقی ماندہ لاشوں کی واپسی کا انتظار کر رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔