فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان میں اشیائے خور و نوش کا کال پڑ گیا

محمد قاسم:

طالبان حکومت کی ہٹ دھرمی اور بار بار مذاکرات سے فرار کے باعث پاک افغان سرحد بند ہونے ہوئے ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ جبکہ پاکستان نے صرف افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے عارضی طور پر بارڈر کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم تجارت ، ٹرانزٹ اور سامان برداری کے تمام راستے بدستور بند ہیں۔ جبکہ بارڈر کی طویل بندش کے باعث پھنسی ہوئی درجنوں گاڑیوں سے خراب شدہ سامان نکالنا شروع کر دیا گیا اور متعدد ٹرک و کنٹینرز واپس پشاور کی جانب روانہ کر دیے گئے ۔

ذرائع کے مطابق طویل بندش کے باعث افغانستان کے کئی علاقوں میں اشیائے خوردونوش اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے اور خاص طور پر آٹا، چینی ،گڑ اور ادویات نایاب ہو چکی ہیں ۔ ذرائع کے بقول افغانستان کے بیشتر باشندے ٹی بی سمیت شوگر اور دیگر بیماریوں کا علاج پشاور کے اسپتالوں سے کروا رہے تھے۔ واپس جاتے وقت اپنے ساتھ کافی مقدار میں ادویات وغیرہ ساتھ لے گئے۔ لیکن اب اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ ادویات وافر مقدار میں ساتھ لے جانے والوں کے پاس بھی ادویات ختم ہو چکی ہیں۔

افغانستان سے آمدہ اطلاعات کے مطابق شوگر کی بیماری میں استعمال کی جانے والی انسولین کی اس وقت افغانستان کے مختلف شہروں میں شدید قلت ہے اور بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ بلیک میں بھی ویکسین فروخت کی جارہی ہے۔ اسی طرح الرجی کی ادویات بھی افغانستان کی میڈیکل مارکیٹوں میں ناپید ہو چکی ہیں کیونکہ افغانستان میں بھی سردی کا موسم شروع ہو گیا ہے اسی لئے سینے،دمے اور الرجی کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو اذیت ناک صورتحال کا سامنا ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان سے واپس اپنے ملک جانے والے افغان مہاجرین بھی طالبان حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہٹ دھرمی چھوڑ کر مذاکرات کو کامیاب بنایا جائے تاکہ بند ہونے والی سرحدات کھل سکیں۔ ذرائع کے مطابق افغانستان میں آٹا، چینی، گڑ اور ادویات ناپید ہوتی جارہی ہیں جس سے روزمرہ زندگی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اگر بارڈرجلد نہ کھولاگیا تو غذائی بحران سنگین شکل اختیار کر لے گا۔ جبکہ پشاو ر کے ٹرانسپورٹرز نے افغانستان جانے سے بھی انکار کر دیا ہے اور ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے تجارتی معاہدے موخر کئے ہیں ۔

ذرائع کے بقول، افغان طالبان کا دوغلا پن دیکھتے ہوئے پاکستانی حکام نے بارڈر سیکورٹی پر سخت موقف اپنایا ہے جس کی پاکستانی عوام کی جانب سے بھی تائید و حمایت کی جارہی ہے کہ جب تک افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم نہیں کی جاتیں، اس وقت تک تجارتی راستے نہیں کھولے جائیں۔

ذرائع کے مطابق دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں افغانستان سے آنے والے بعض عناصر کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ملے ہیں جس کے بعد بارڈر کنٹرول مزید سخت کر دیاگیا ہے۔ جبکہ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بارڈر بندش کا سلسلہ برقرار رہا تو نہ صرف افغان عوام اور تاجر بھی شدید معاشی دبائو کا شکار ہو جائیں گے۔

ذرائع کے مطابق طورخم بارڈر کی بندش کے باعث جن کنٹینرز اور ٹرکوں میں مختلف سامان پڑا تھا اس میں سبزیاں اور پھلوں کے خراب ہونے کی اطلاعات ہیں اور اس کی وجہ سے تاجروں کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور خاص کر سبزیوں میں ٹماٹر کے خراب ہونے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم بعض تاجروں نے اپنا سامان خراب ہونے سے بچانے کے لئے پشاور کی منڈیوں کو منتقل کر دیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جیسے ہی پشاور کی سبزی منڈی میں ٹماٹر سمیت دیگر سبزیاں اور پھل وغیرہ پہنچے ان کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئی ہے اور ٹماٹر جو 500 روپے کلو تک جا پہنچا تھا اب 150 سے 200 روپے کلو میں فروخت کیا جارہا ہے ۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ میں دیگر سبزیاں اور پھل بھی سستے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس افغانستان میں سبزیوں کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور ساتھ گھی، چینی، آٹا، چکن ، گوشت وغیرہ بھی مہنگے ہوئے ہیں کیونکہ یہ سارا سامان پاکستان سے ہی افغانستان جاتا ہے۔ تاہم اب بڑے سرمایہ داروں نے اپنا پیسہ افغانستان کے بجائے ایران کے ساتھ کاروبار پر لگانے کے حوالے سے غور شروع کر دیا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔