امت رپورٹ :
اس وقت یہ سوال بہت زیادہ گردش میں ہے کہ نئی مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کا پہلا سربراہ کون ہوگا؟ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس امین الدین خان ممکنہ طور پر اس نئے منصب پر بیٹھیں گے۔
اس کی تصدیق کے لیے ’’امت‘‘ نے جوڈیشل راہداریوں اور باخبر وکلا برادری کے ذرائع سے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ جسٹس امین الدین ہی نئی وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کے طور پر سب سے مضبوط امیدوار ہیں۔ ان کے نام پر حکومتی حلقوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ جسٹس امین الدین خان اس وقت آئینی بنچ کے سربراہ ہیں۔ تاہم مقررہ پینسٹھ برس کے ہو جانے کے بعد وہ نومبر کے آخر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق ستائیسویں آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر پینسٹھ برس سے بڑھا کر اڑسٹھ برس کرنے کا ایک مقصد جسٹس امین الدین خان کو آئینی عدالت کا پہلا چیف جسٹس بنانے کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ اگر مجوزہ ستائیسویں ترامیم نومبر کے مہینے میں ہی منظور کر لی جاتی ہیں، جس کے قوی امکانات ہیں، بلکہ ذرائع کے بقول یہ ترامیم چودہ سے اٹھارہ نومبر کے درمیان منظور کرانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے تو ایسے میں جسٹس امین الدین خان کے پہلے چیف جسٹس آئینی کورٹ بننے کے امکانات مزید روشن ہو جائیں گے۔ اس طرح اعلی عدلیہ میں انہیں مزید تین برس مل جائیں گے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی دوڑ میں مزید دو نام بھی شامل ہیں۔ اگر جسٹس امین الدین بوجوہ نیا منصب حاصل نہ کرسکے تو پھر سپریم کورٹ پاکستان کے جسٹس عامر فاروق یا جسٹس شاہد بلال حسن میں سے کسی ایک کو وفاقی آئینی عدالت کا سربراہ بنایا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ مجوزہ نئی ترامیم کے مطابق صدر مملکت، وزیر اعظم کی سفارش پر موجودہ سپریم کورٹ کے ججز میں سے آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تعیناتی کریں گے۔ بعد ازاں وفاقی آئینی عدالت کے پہلے بیچ کی تقرری بھی صدر، وزیر اعظم کی سفارش پر کریں گے، تاہم اس میں آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مشاورت شامل ہوگی۔ پہلے بیچ میں سات سے آٹھ جج صاحبان کی تقرری متوقع ہے۔
مختلف ادوار میں اہم حکومتی کیسز لڑنے والے ایک باخبر وکیل نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پہلی آئینی عدالت کے قیام اور ججز کے تبادلوں سمیت نئی عدالتی ترامیم پر وکلا برادری کی اکثریت خوش ہے اور یہ وکلا سمجھتے ہیں کہ خاص طور سے پچھلے دس برسوں میں جس طرح سپریم کورٹ کے بعض ججز نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، حتیٰ کہ کچھ کے فیصلوں پر آئین کو دوبارہ لکھنے کے الزامات تک لگے۔ اس سیاست نے عدلیہ کو بے انتہا نقصان پہنچایا۔ نئی ترامیم اس صورت حال سے نکلنے کی ایک کوشش ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نو منتخب باڈی بھی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے تجویز کی بھرپور تائید کرچکی ہے۔
جوڈیشل سیاست کی اندرونی کہانیوں سے وقف اس سینئر وکیل کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو سیاست زدہ کرنے میں سپریم کورٹ کے ایک جج کا بڑا رول رہا۔ جس نے سب کو خراب کیا۔ جسٹس منیب تو پہلے سے ’’ہم خیال ججز‘‘ قرار دئیے جانے والوں میں شامل تصور کئے جاتے تھے۔ تاہم جسٹس منصور علی شاہ جیسے قابل اور بہترین کیریئر کے حامل جج کو بھی اندرونی رسہ کشی کا حصہ بنانے میں ان ہی موصوف جج کے مشورے شامل تھے۔ ان کے کہنے پر ہی مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا، جو بعد میں متنازعہ ہوگیا اور اس فیصلے کو آئینی بنچ نے اڑا کر رکھ دیا۔
گزشتہ برس ستمبر میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے سے متعلق سپریم کورٹ کا ستر صفحات پر مشتمل جو تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا، اس پر خاصی تنقید ہوئی تھی اور مخالف سیاسی پارٹیوں نے اسے ایک سیاسی فیصلہ قرار دیا تھا، کیونکہ اس کیس میں پہلے پشاور ہائیکورٹ اور بعدازاں سپریم کورٹ میں فریق سنی اتحاد کونسل تھی۔ لیکن فیصلہ ایک ایسی پارٹی تحریک انصاف کے حق میں دیدیا گیا جو اس مقدمے میں فریق ہی نہیں تھی۔
بعد ازاں آئینی بنچ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ وکیل کے بقول ہائیکورٹ کے پانچ جج صاحبان کے ایکٹیو ازم کے پیچھے بھی ان ہی جج صاحب کی گیم تھی، وہی ان سے خطوط وغیرہ لکھواتے تھے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نئی ترامیم کی منظوری کے بعد اب ان پانچ ججوں میں سے کسی کا تبادلہ بلوچستان کیا جائے گا اور کسی کو سندھ بھیج دیا جائے گا۔ اس صورت حال میں زیادہ امکان یہی ہے کہ ان میں سے بعض جانے سے انکار کردیں گے۔ اس صورت میں مجوزہ آئینی شق کے تحت خودبخود ریٹائر ہو جائیں گے۔ کیونکہ ان میں زیادہ تر اسلام آباد کے شہزادے ہیں اور بلوچستان جیسے صوبے میں جانا برداشت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ستائیسویں ترامیم کی منظوری کے بعد عدالت ڈھانچے میں ہونے والی تبدیلیوں پر سپریم کورٹ کے بعض جج صاحبان کے استعفے بھی خارج از امکان نہیں۔
ذرائع کے بقول اعلیٰ عدلیہ کے سیاست زدہ ہونے سے ایک بڑا نقصان یہ بھی ہورہا تھا کہ ان کے زیر سایہ نچلی عدالتوں کے جج صاحبان ریاست کی رٹ کو چیلنج کررہے تھے، یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان تھا۔ مثلاً اسلام آباد ہائیکورٹ سے ایک آرڈر پاس کردیا گیا کہ عمران خان کو ان مقدمات میں بھی گرفتار نہ کیا جائے جو ابھی قائم ہونے کا امکان ہے۔ یعنی مقدمے سے پہلے ہی ایڈوانس ضمانتوں کی انوکھی روایت ڈالی جارہی تھی۔ یہ کھلے عام اس آئین سے بغاوت تھی جس کا انہوں نے حلف اٹھایا تھا۔ جج کا کام ریاست کی رٹ کو قائم کرنا ہوتا ہے لیکن الٹا رٹ کو چیلنج کیا جارہا تھا۔ جس کے پیچھے سیاسی ایجنڈا تھا۔ اس کی ایک اور کلاسک مثال یہ بھی ہے کہ جب ایک خاتون جج کو دھمکیاں دینے پر عمران خان کے خلاف توہین عدالت کا کیس بنا تو انہیں بچ نکلنے کے لئے حد درجہ رعایتیں دی گئیں۔
اس مقدمے میں پہلے دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی تھیں۔ ابھی ٹرائل کورٹ میں مقدمے کی سماعت شروع ہی ہوئی تھی کہ پی ٹی آئی اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئی۔ جہاں اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نے یہ دفعات ختم کرنے کا حکم دیدیا۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کا انتظار بھی نہیں کیا گیا۔ بعد ازاں اس کیس کو خارج کردیا گیا، اگرچہ عمران خان نے غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کیا تھا۔ اس کیس کے دوران ایک دن ایسا بھی آیا کہ یہ کیس ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ دونوں میں لگا ہوا تھا۔
خاتون قانون ماہر ریما عمر نے بھی عدلیہ کو سیاست زدہ کرنے کے حوالے سے کچھ ماضی قریب کی مثالیں دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب نواز شریف کو پاناما کیس میں سزا سنائی گئی تو سزا سنانے والے بنچ کے سربراہ جسٹس ثاقب نثار تھے – جبکہ بنچ میں ان کے ساتھ جسٹس کھوسہ، جسٹس گلزار، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن تھے، جو مانیٹر نگ جج بھی تھے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام بات کرتے ہوئے ریما عمر کا مزید کہنا تھا۔ اس کے بعد جب نیب عدالتوں میں کیسز چل رہے تھے تو یہ جسٹس ثاقب نثار ہی تھے جو جلد فیصلوں کے خواہشمند تھے۔
نواز شریف کو نااہل قرار دیدیا گیا تو سوال اٹھا کہ نااہلی کی مدت کتنی ہونی چاہیے۔ پھر جس بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ نااہلی تاحیات ہوگی۔ اس بنچ میں بھی جسٹس ثاقب نثار، جسٹس بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عظمت سعید تھے۔ پھر سوال اٹھا کہ نواز شریف تو نااہل ہونے کے بعد بھی پارٹی کے اہم فیصلے کررہے ہیں۔ ٹکٹ دے رہے ہیں۔ قانون میں اس پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ لیکن چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ بنا۔ ان کے ساتھ جسٹس بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن تھے۔ اس بنچ نے نواز شریف سے یہ حق چھین لیا۔ اسی برس حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی کہ عمران خان نے بنی گالا پراپرٹی کے لئے مس ڈیکلریشن کی ہے۔ اس کی سماعت کے لیے ایک بار پھر چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ بنا۔ ان کے ساتھ جسٹس بندیال اور جسٹس فیصل عرب تھے۔ پھر ووٹ آف نو کانفیڈینس کا فیصلہ آتا ہے۔ اس میں بھی جسٹس بندیال، اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور میا ں مندوخیل تھے۔
اس کے بعد پی ٹی آئی کے ایک دھرنے کا معاملہ تھا۔ پٹیشن دائر ہوئی کہ انہیں اجازت دی جائے۔ اس کی سماعت کرنے والے بنچ میں بھی جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور مظاہر علی نقوی تھے۔ پھر توہین عدالت کی ایک پٹیشن دائر ہوئی کہ جہاں دھرنے کی اجازت دی گئی تھی عمران خان نے وہاں دھرنا نہیں دیا۔ اس کی سماعت چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں بنچ نے کی۔ ان کے ساتھ ایک بار پھر جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن اور مظاہر علی نقوی تھے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی بھی تھے، لیکن انہوں نے اختلافی نوٹ لکھا۔ پھر آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کا معاملہ آیا تو اس میں جسٹس بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے دیگر دو جج صاحبان نے ان تینوں کے فیصلے کو آئین کو ری رائٹ کرنے کے مترادف قرار دیا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos