فائل فوٹو
فائل فوٹو

ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ میں 5 ارب کا گھپلا

سید حسن شاہ :

ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ میں تعمیراتی کاموں کے ٹینڈرز میں 5 ارب روپے خوردبرد کرنے کا نیا اسکینڈل سامنے آگیا۔ ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ کے حکام کی جانب سے تعمیراتی ٹینڈر میں ہیر پھیر، جعلی دستاویزات تیار کرنے، بوگس اشتہارات کو شائع ظاہر کرنے اور من پسند ٹھیکیداروں کو نواز کر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔ ٹینڈر جاری ہونے کے دو ماہ بعد ہی بناکسی انسپکشن، تعمیراتی کام جائزہ اور سرٹیفکیشن کے بغیر ہی ٹھیکیداروں کو ایک ارب 25 کروڑ روپے جاری کردیئے گئے۔

صوبائی اینٹی کرپشن عدالت میں شکایت داخل ہونے پر سیکریٹری ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ رفیق احمد قریشی، ڈائریکٹر ورکس سید مظفر علی شاہ اور ڈائریکٹر فنانس عبدالباسط سمیت 3 ٹھیکیدار کمپنیاں مشکل میں پھنس گئیں۔ صوبائی اینٹی کرپشن عدالت نے ڈی جی اینٹی کرپشن کو ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ کے حکام سمیت دیگر کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔

ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ میں تعمیراتی کاموں کے ٹینڈرز میں 5 ارب روپے خوردبرد کا انکشاف ہوا ہے۔ مذکورہ معاملہ عدالت پہنچنے پر ڈی جی اینٹی کرپشن کو تحقیقات کے احکامات بھی کردیئے گئے ہیں۔ اس حوالے سے طارق مصطفیٰ کی جانب سے ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ کے حکام اور ٹھیکیدار کمپنیوں کے خلاف اینٹی کرپشن کورٹ میں شکایت داخل کی گئی جس میں سیکریٹری ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ رفیق احمد قریشی، ڈائریکٹر ورکس سید مظفر علی شاہ ، ڈائریکٹر فنانس عبدالباسط، 3 ٹھیکیدار کمپنیاں میسرز نیاز محمد کنسٹرکشن ، میسرز کمبائنڈ انجینئرنگ شفیق قریشی اور میسرز یونٹ انٹرپرائززجے وی گلیمرکو فریقین بنایا گیا۔

شکایت میں ورکرز ویلفیئر بورڈ کے اعلیٰ حکام سمیت سرکاری افسران پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ شکایت گزار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ یکمشت 5 ارب روپے مالیت کے ٹینڈر میں ہیر پھیر، جعلی دستاویزات تیار کرنے، بوگس اشتہارات شائع ظاہر کرنے اور من پسند ٹھیکیدار کو فائدہ پہنچانے کی کوششوں کا سخت قانونی نوٹس لیا جائے۔

اینٹی کرپشن عدالت میں جمع کرائی گئی شکایت میں بتایاگیاہے کہ محکمے کی جانب سے ٹینڈر نمبر INF-KRY 919/2025 جو 20 مارچ 2025ء کوجاری کیا گیا تھا اور اس کی مالیت 5 ارب روپے سے زیادہ بتائی گئی۔ ٹینڈر کے مکمل عمل کو منظم منصوبہ بندی کے تحت خراب کیا گیا اور شفافیت کے تقاضے دانستہ طور پر پسِ پشت ڈالے گئے۔ جبکہ ٹینڈر اشتہارات جن اخبارات میں شائع ہونے کا دعویٰ کیا گیا حقیقت میں ان اخبارات نے ایسے کوئی اشتہارات شائع ہی نہیں کیے۔

محکمے کے ریکارڈ میں موجود شائع شدہ اشتہارات دراصل جعلی کٹنگز ہیں جنہیں صرف فائل میں شامل کیا گیا۔ جب ان اخبارات کے اصل ایڈیشن لائبریریوں اور مارکیٹ سے حاصل کیے گئے تو ان میں ٹینڈر کا کوئی ذکر موجود نہیں تھا۔ ایسے جعلی ریکارڈ کا مقصد صرف قانونی محسوس ہونے والا کاغذی ثبوت تیار کرنا تھا، جبکہ درحقیقت عوامی اشتہارات کے تقاضے پورے ہی نہیں کیے گئے۔ شکایت میں مزید کہا گیا کہ ٹینڈر عمل کو باقاعدہ طور پر سبوتاژ کیا گیا تاکہ من پسند ٹھیکیدار کو فائدہ پہنچایا جائے۔ ٹینڈر کے عمل میں سپرا رولز کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ حکام کی جانب سے ٹھیکیداروں سے مطلوبہ بڈ سیکیورٹی اور پرفارمنس سیکیورٹی بھی نہیں لی گئی ، محض عارضی طور پر پے آرڈرز لئے گئے جو بعد میں ان کو واپس کردیئے گئے۔ ٹینڈر کو خفیہ رکھا گیا اور سپرا کے پورٹل سے بھی ٹینڈر کو غائب کردیا گیا۔

ٹینڈر کے دو ماہ بعد ہی ٹھیکیدار کمپنیوں کوبنا کسی انسپکشن ، تعمیراتی کام جائزہ اور سرٹیفکیشن کے بغیر ایک ارب 25 کروڑ روپے بھی جاری کردیئے گئے جس سے ملزمان کی مجرمانہ غفلت اور ملی بھگت واضح ہوتی ہے۔ متعلقہ افسران نے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملی بھگت سے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا اور خطیر رقم کے غبن کی راہ ہموار کی گئی۔

شکایت میں بتایاگیاہے کہ درخواست گزار نے متعدد بار ان بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ڈی جی اینٹی کرپشن کو تحریری درخواستیں بھیجیں جن کی نقول بھی عدالت میں پیش کی گئیں۔ درخواست گزار کے مطابق 22 ستمبر 2025ء کو دی جانے والی شکایات پر تاحال کوئی مؤثر کارروائی عمل میں نہیں آئی جس کے بعد مجبوراً براہِ راست عدالتی راستہ اختیار کیا گیا۔ بطور پاکستانی شہری اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے کئی مرتبہ حکام کو لکھا مگر سرکاری اداروں کی خاموشی نے ان کے لیے عدالت سے رجوع کرنا ناگزیر بنا دیا۔

دستاویزات کے مطابق شکایت میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو فوری طور پر مذکورہ معاملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام متعلقہ ریکارڈ، سرکاری فائلز اور ٹینڈر سے متعلق سارا ڈیٹا ضبط کر کے اس کی فارنزک رپورٹ تیار کرائی جائے۔ تاکہ کسی بھی قسم کی تبدیلی، حذف یا جعل سازی کو روکا جاسکے۔ اس شکایت کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق منظور کیا جائے تاکہ بہتر احتساب، شفافیت اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جا سکے۔

اینٹی کرپشن عدالت نے مذکورہ شکایت پر سیکریٹری ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ رفیق احمد قریشی، سید مظفر علی شاہ ڈائریکٹر ورکز، عبدالباسط ڈائریکٹر فنانس ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ دیگر حکام اور ٹھیکداروں کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا۔ عدالت نے ہدایت دی ہے کہ ڈی جی اینٹی کرپشن ذمہ دار افسران سے معاملے کی انکوائری کروائیں۔عدالت نے شکایت کنندہ کو بھی انکوائری افسر کے ساتھ تعاون کی ہدایت کردی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔