فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی میں اسمگلروں نے نجی فورس بنالی

عمران خان :

حساس ادرے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ منظم اسمگلنگ مافیا نے کراچی کے پوش علاقوں میں قائم مارکیٹوں کے گوداموں کو نہ صرف اربوں روپے کے اسمگلنگ کے سامان کا گڑھ بنا دیا ہے۔ بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چھاپہ مار ٹیموں کی کارروائیاں ناکام بنانے کیلئے پیشگی معلومات کیلئے مخبروں کا جال بھی بچھا دیا ہے۔ جس میں افرادی قوت کے ساتھ خفیہ کیمروں کا نیٹ ورک بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی کسٹمز کی ٹیموں کی کارروائیوں میں ضبط شدہ سامان اور گاڑیاں واپس چھیننے کیلئے اپنے سینکڑوں ملازمین اور کارندوں پر مشتمل نجی فورس قائم کرلی ہے، جو دن رات انہیں گوداموں کے کمروں میں ہی رہتے ہیں۔ جس کے بعد مقتدرہ قیادت کے حکم پر حساس ادارے نے کسٹمز کے ساتھ مل کر طارق روڈ، بولٹن مارکیٹ، جامع کلاتھ، لیاقت آباد مارکیٹ سمیت شہر کی دیگر بڑی مارکیٹوں میں قائم اس منظم نیٹ ورک کے پس پردہ موجود سرغنوں کی خفیہ نگرانی شروع کردی ہے۔ تاکہ انہیں رنگے ہاتھوں پکڑ کرمضبوط کیس بنائے جاسکیں۔

’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ملک بھر میں جاری انسدادِ اسمگلنگ مہم کے دوران کراچی کے معروف تجارتی علاقے طارق روڈ میں ہونے والی تازہ کارروائی نے ایک چونکا دینے والا رجحان بے نقاب کیا ہے کہ ماضی میں اسمگلنگ کو ہمیشہ سرحدی راستوں، خفیہ ٹرکوں اور چھوٹے تجارتی قافلوں تک محدود سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ غیر قانونی دھندا شہر کے اندر گوداموں اور مارکیٹوں میں منتقل ہو چکا ہے۔ ذرائع کے بقول کسٹمز انفورسمنٹ کی اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن کی ٹیم نے خفیہ ادارے کی رپورٹ پر رینجرز کے ساتھ کراچی کے مصروف ترین تجارتی زون میں چھاپہ مارا۔ اہلکاروں کو نہ صرف اسمگل شدہ کپڑا اور دیگر اشیا کی بھاری مقدار ملی۔ بلکہ شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مشتعل افراد نے اہلکاروں پر پتھرائو کیا، ہوائی فائرنگ کی اور ایک کسٹمز گاڑی کو آگ لگا دی۔ کئی گھنٹوں تک صورتحال کشیدہ رہی۔ ٹریفک معطل رہا اور اطراف کے علاقے بند کر دیئے گئے۔ کارروائی کے بعد بیسیوں ٹرکوں اور ایک چالیس فٹ کنٹینر میں بھرے کپڑے کو قبضے میں لے کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

ذرائع کے بقول یہ پہلا موقع نہیں کہ کراچی کے تجارتی علاقوں میں ایسی پرتشدد مزاحمت سامنے آئی ہو۔ پچھلے چند برسوں میں بولٹن مارکیٹ، جامع کلاتھ مارکیٹ اور لیاقت آباد کے ہول سیل زون میں بھی انسدادِ اسمگلنگ کارروائیوں کے دوران اسی نوعیت کے واقعات ہو چکے ہیں۔ 2022ء میں بولٹن مارکیٹ میں کپڑے اور الیکٹرانک سامان کے خلاف چھاپے کے دوران کسٹمز ٹیم پر حملہ کیا گیا۔ اگلے سال جامع کلاتھ مارکیٹ میں کارروائی کے دوران اہلکاروں کو ہجوم نے گھیر کر شدید مزاحمت کی۔ جبکہ 2024ء میں لیاقت آباد کے قریب گوداموں پر چھاپے کے دوران فائرنگ سے ایک اہلکار زخمی ہوا اور دو سرکاری گاڑیاں جلادی گئیں۔

کسٹمز ذرائع کے بقول طارق روڈ پر حالیہ واقعہ انہی واقعات کا تسلسل ہے۔ فرق یہ ہے کہ اسمگلنگ نے ایک منظم شہری ڈھانچے کی صورت اختیار کر لی ہے۔ انسدادِ اسمگلنگ حکام کے مطابق اب بیشتر غیر قانونی اشیا خصوصاً کپڑا، الیکٹرانکس، ٹائر، سگریٹ اور موبائل فون سرحد پار سے آکر کراچی جیسے شہروں کے اندر گوداموں میں محفوظ کی جاتی ہیں۔ ان گوداموں کو عموماً ایسے تاجروں کے نام پر رجسٹر کیا جاتا ہے جن کی کئی کمپنیاں بیک وقت چل رہی ہوتی ہیں۔ تاکہ نگرانی کے دوران اصل مال کی شناخت نہ ہو سکے۔

یہ گودام شہر کے مختلف حصوں مثلاً کورنگی، گلستانِ جوہر، نیپا چورنگی اور سائٹ ایریا میں قائم ہیں۔ جہاں غیر قانونی درآمدی سامان کو خفیہ طور پر اسٹور کیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسمگلنگ نیٹ ورک کسی اتفاقیہ مزاحمت کے بجائے باقاعدہ منظم حکمت عملی کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ جیسے ہی چھاپہ مار ٹیم کسی علاقے میں داخل ہوتی ہے، مقامی کارندے آس پاس کے دکانداروں اور مزدوروں کو جمع کر کے ایک ہجوم تیار کر لیتے ہیں، جو پتھرائو اور شور شرابے کے ذریعے اہلکاروں کو سامان ضبط کرنے سے روکتے ہیں۔ یہی منظم مزاحمت، انسدادِ اسمگلنگ مہمات کیلئے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔

حکام نے ان واقعات کے پیش نظر آئندہ آپریشنز میں واٹر کینن، رائٹ کنٹرول یونٹس اور نگرانی کیلئے ڈرونز استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ تاکہ اہلکاروں کی حفاظت کے ساتھ کارروائیاں موثر انداز میں مکمل کی جا سکیں۔ایف بی آر ذرائع کے بقول اسمگلنگ کا مسئلہ صرف شہری گوداموں تک محدود نہیں بلکہ اس کی جڑیں پاکستان کی مغربی سرحدوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔

ایران سے غیر قانونی طور پر آنے والا تیل، کپڑا اور کھانے پینے کی اشیا ملک کے مختلف حصوں میں اسمگلنگ کے بڑے ذرائع بن چکی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف ایران سے آنے والی اشیا کی غیر قانونی ترسیل سے سالانہ 200 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے۔ اسی طرح افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال کے ذریعے بھی اربوں روپے مالیت کا سامان پاکستان کی منڈیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ عمل بظاہر قانونی نظر آتا ہے، کیونکہ مال کو افغانستان کے لیے کلیئر کرایا جاتا ہے، مگر بعد ازاں وہی سامان غیر قانونی راستوں سے دوبارہ کراچی، لاہور اور کوئٹہ کی مارکیٹوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف قومی خزانے کو ٹیکس کا نقصان ہوتا ہے بلکہ مقامی صنعتیں بھی کم قیمت غیر قانونی مصنوعات کی موجودگی کے باعث نقصان اٹھاتی ہیں۔

ذرائع کے بقول پاکستان کو اسمگلنگ کے باعث ہر سال تقریباً 500 سے 600 ارب روپے کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ صرف کپڑے کی اسمگلنگ سے قومی محصولات میں 70 ارب روپے سالانہ کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صارفین وقتی طور پر سستا سامان خرید کر فائدہ محسوس کرتے ہیں، مگر طویل مدتی نقصان ملک کی صنعت، روزگار کے مواقع اور حکومتی ریونیو کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ انسدادِ اسمگلنگ کے اداروں نے اب اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی ہے۔ وہ صرف سرحدی ناکوں پر کارروائیوں تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے شہری گوداموں، تجارتی مراکز اور بڑے ہول سیل زونز پر توجہ مرکوز کر دی ہے۔ اب کوشش کی جا رہی ہے کہ کراچی کے تمام بڑے تجارتی علاقوں کی ڈیجیٹل انوینٹری اور ویئرہائوس رجسٹریشن کا ایک مرکزی نظام تیار کیا جائے تاکہ کسی بھی گودام میں غیر قانونی مال کی نشاندہی فوری طور پر ممکن ہو سکے۔ اسی کے ساتھ مختلف اداروں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کا نظام بہتر بنایا جا رہا ہے، تاکہ معلومات کی بنیاد پر بروقت کارروائی کی جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی کی بیشتر ناکام کارروائیوں کی وجہ معلومات کا وقت پر تبادلہ نہ ہونا تھی، جس کے باعث اسمگلر پیشگی اطلاع پا کر اپنا مال دوسری جگہ منتقل کر دیتے تھے۔

ذرائع کے مطابق اس ضمن میں بھیجی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں اسمگلنگ اب محض قانون سے بچنے کی کوشش نہیں رہی۔ بلکہ یہ ایک مکمل گودامی معیشت کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کے ذریعے اربوں روپے کی اشیاء￿ روزانہ غیر قانونی طور پر مارکیٹوں میں داخل ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسا غیر رسمی مالیاتی نظام بن چکا ہے جس کا حجم بعض اوقات باقاعدہ صنعتوں کے حجم کے برابر جا پہنچتا ہے۔ طارق روڈ پر ہونے والی حالیہ کارروائی نے واضح کر دیا ہے کہ اسمگلنگ کے خلاف جنگ اب سرحدوں سے نکل کر شہروں کے اندر لڑی جا رہی ہے۔ اگر ریاست نے شہری سطح پر ان نیٹ ورکس کے خلاف مربوط پالیسی، سخت قانون سازی، شفاف گودامی نظام اور جدید انٹیلی جنس حکمتِ عملی اختیار نہ کی تو ہر کامیاب کارروائی کے بعد کوئی نیا نیٹ ورک جنم لیتا رہے گا۔ اب سوال یہ نہیں کہ کتنے ٹرک پکڑے گئے یا کتنے گودام سیل ہوئے، اصل سوال یہ ہے کہ کتنے نیٹ ورکس اب بھی شہر کے اندر خاموشی سے سرگرم ہیں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے کون ہیں؟ جب تک اس سوال کا جواب نہیں ملتا، کراچی کی یہ غیر رسمی معیشت ریاستی معیشت کے لیے ایک مستقل خطرہ بنی رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔