فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ کے جج جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے استعفیٰ دے دیا

سپریم کورٹ کے جج جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے استعفیٰ دے دیا.

ذرائع نے بتایا کہ جسٹس منصور علی شاہ مستعفی ہوگئے ہیں اور دوسرے جسٹس اطہر من اللہ نے بھی  استعفیٰ دے دیا۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے استعفیٰ صدرمملکت کو بھجوا دیا ہے۔ دونوں ججز نے سپریم کورٹ سے اپنے چیمبرز بھی خالی کر دیے ہیں۔

نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے 13 صفحات پر مشتمل استعفے میں وجوہات بیان کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم آئین پاکستان پر سنگین حملہ ہے، 27ویں آئینی ترمیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، ترمیم نے عدلیہ کو حکومت کے ماتحت بنا دیا ہے، 27ویں ترمیم نے ہماری آئینی جمہوریت کی روح پر کاری ضرب لگائی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو منقسم کرکے عدلیہ کی آزادی کو پامال کرنے سے ملک کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا، اس نازک موڑ پر میرے لیے دو ہی راستے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفیٰ میں لکھا "جس آئین کے تحفظ کا میں نے حلف اٹھایا تھا، وہ اب اپنی اصل صورت میں باقی نہیں رہا۔ میں جتنی بھی خود کو تسلی دینے کی کوشش کروں، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اب جو بنیادیں رکھی جا رہی ہیں، وہ آئین کی قبر پر رکھی جا رہی ہیں۔ جو کچھ باقی بچا ہے، وہ صرف ایک سایہ ہے ایک ایسا سایہ جو نہ اس کی روح کو سانس دیتا ہے اور نہ ہی عوام کی آواز کو دہراتا ہے۔”

 

سپریم کورٹ کے جج جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے استعفیٰ دے دیا

 

اس سے قبل 10 نومبر کو  جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ بطور عدلیہ سربراہ فوری ایگزیکٹو سے رابطہ کریں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں مجوزہ آئینی ترمیم پرعدلیہ سے باضابطہ مشاورت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدلیہ اگر متحد نہ ہوئی تو اس کی آزادی اور فیصلے دونوں متاثر ہوں گے، تاریخ خاموش رہنے والوں کو نہیں، آئین کی سر بلندی کے لیے کھڑے ہونے والوں کو یاد رکھتی ہے۔

خط میں چیف جسٹس پاکستان سے تمام آئینی عدالتوں کےجج صاحبان کا اجلاس بلانے کی سفارش کرتے ہوئے سپریم کورٹ، ہائیکورٹس اور وفاقی شرعی عدالت سے باضابطہ مشاورت کی تجویز دی گئی تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ کے خط میں کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس واضح کریں آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی، آئینی عدالتوں کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جا سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں کہا تھا کہ آپ اس ادارے کے ایڈمنسٹریٹر نہیں گارڈین بھی ہیں، یہ لمحہ آپ سے لیڈر شپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔

خط کے متن میں کہا گیا تھا کہ عدلیہ کا ادارہ جاتی مؤقف تحریری طور پر حکومت اور پارلیمان کو بھجوایا جائے، جب تک مشاورت مکمل نہ ہو، حکومت کو ترمیم پیش نہ کرنے سے آگاہ کیا جائے، میری گزارش اختلاف نہیں، ادارہ جاتی یکجہتی کی اپیل ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں کہا تھا کہ یہ خط کسی فرد کے خلاف نہیں، آئین کی سر بلندی اور عدلیہ کی خود مختاری کے حق میں ہے، آئین پر خاموشی اختیار کرنا آئینی حلف کی روح کو مجروح کرے گا، آئندہ نسلوں کے لیے خود مختار اور با وقار عدلیہ کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔

خیال رہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور ذرائع کے مطابق جسٹس امین الدین خان آئینی عدالت کے چیف جسٹس ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔