سراجیوو کی سنائپرسفاری۔ فائل فوٹو

یورپی باشندے بوسنیائی مسلمانوں کا شوقیہ شکار کرتے رہے- تہلکہ خیز انکشاف

بوسنیاکے شہر سراجیوو کوسربیا سے ملانے والے پل پر ایک لڑکا اور لڑکی خون میں لت پت پڑے ہیں۔کچھ گاڑیاں آتی ہیں اور ان کے مردہ جسم اٹھاکر لے جاتی ہیں۔

یہ ایک فلم کا منظرہے ،اجس کا نام ہے ’’ سراجیوو سفاری‘‘(Sarajevo Safari )۔

سراجیووسفاری، محض ایک فلم نہیں بلکہ90 کی دہائی میں یہ شہر واقعی ایک شکارگاہ تھی ۔

یہ اس دورکی بات ہے جب سابق یوگوسلاویہ میں خانہ جنگی جاری تھی او رمسلمان اکثریتی علاقہ بوسنیا قتل وغارت کا خاص ہدف تھا۔

یہ سفاری یعنی سراجیوو کا وہ خاص علاقہ جسے شکار کھیلنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ،اس وقت ‘‘ سنائپر سفاری ‘‘کہلاتی تھی۔اور سراجیووکے مکین ،شہرکی سڑکو ں کو سنائپرگلی یاشاہراہ(Sniper Alley) کہتے۔

فلم ’’ سراجیوو سفاری ‘‘ کے جس منظر میں ایک لڑکا اور لڑکی پل کے اوپر مردہ حالت میں نظر آتے ہیں، وہ ان سیکڑوں اموات کے دوران ایک حقیقی واقعے میں مارے گئے تھے جب
انہیں پل پارکرتے ہوئے ایک یا زیادہ شوقیہ شکاری سنائپرزنے گولی ماردی جو اس ’’ کھیل‘‘ کے لیے باقاعدہ پیسے اداکرتے تھے۔

گذشتہ دنوں اٹلی کے شہرمیلان میں سرکاری سطح پر تحقیقات کا آغاز کیاگیاہے۔الزام یہ ہے کہ کئی اطالوی امرابلقان جنگ کے دوران ویک اینڈمنانے بوسنیاکی ’’ سنائپر سفاری‘‘ جایا کرتے تھے۔

یہ امرا جو شکار اورہتھیار چلانے کے شوقین تھے،پیسے دے کر پہاڑوں پر موجود سرب فوج کی پوزیشنز سے سراجیوومیں شہریوں پرگولی چلاتے تھے۔سراجیوو پہاڑوں میں گھراہواہے جس کی وجہ سے اس میں ایسے حملے آسان تھے۔

یہ واقعات سرب فوج کی طرف سے سراجیوو کے محاصرے کے دوران پیش آئے جو 1992 سے 1996تک جاری رہا۔ اس محاصرے میں 11 ہزار افرادمارے گئے تھے جن میں 350 لوگ وہ تھے جنہیں غیر ملکی امیرزادوں نے ’’ شکار‘‘ کیا۔

اٹلی کا انسداد دہشت گردی پراسیکیوشن اس معاملے کی تحقیقات کررہاہے۔

دستاویزی فلم’’ سراجیوو سفاری‘‘2022 میں سلووینیاکے ایک ہدایت کار میران زوپانیک نے بنائی تھی۔ زوپانیک نے بھی ان دولت مندغیر ملکیوں کے بارے میں چھان بین کی تھی جنہوں نے اس وحشیانہ کھیل میں حصہ لیا ۔ ان میں سے کچھ روسی اور امریکی بھی تھے، البتہ اطالوی نمایاں ہیں۔استغاثہ کے مطابق ان کی تعداد 100 ہے۔

اس مقدمے کے مدعی ایک صحافی اور ناول نگار ایزیو گوازینی ہیں جنہوں نے باقاعدہ شواہد جمع کرکے 17 صفحات پر مشتمل فائل تیارکی جس میں سراجیووکے سابق میئر کا بیان بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ بوسنیا کے ملٹری انٹیلی جنس افسر ایڈن سباسک کی گواہی بھی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اور کچھ ساتھیوں نے اٹلی کی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی کو ان اطالویوںکے بارے میں بتایاتھا جو سفاری میں حصہ لینے کے لیے ٹری ایسٹ سے سراجیوو جاتے رہے۔

غیر ملکی میڈیا میں شائع ہونے والی تفصیلات میں بتایاگیاہے کہ ’’ سنائپرسفاری‘‘ میں شرکا کو باقاعدہ قیمتوں کی فہرست دی جاتی تھی جس کے مطابق وہ ’’ شکار‘‘ کے حساب سے ادائیگی کرتے۔ سب سے زیادہ قیمت بچوں کاشکار کھیلنے کے لیے تھی،پھر مرد، اس کے بعد خواتین اور آخر میں بوڑھے افراد جنہیں مفت ماراجاسکتاتھا۔

اطالوی اخبار ’’ لاریپیبلیکا‘‘ کو مدعی نے بتایاکہ ان ’’ سیاحوں‘‘ نے مجموعی طورپر جو رقوم اداکیں وہ ایک لاکھ 16 ہزارڈالر اور آج کے حساب سے 1 لاکھ یوروبنتے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کا کہناہے کہ 1990 کی دہائی میں سراجیوومیں خدمات سرانجام دینے والے برطانوی افواج کے ارکان بتاتے ہیں کہ بوسنیا میںاُنھوں نے کبھی کسی ’سنائپر سیاحت‘ کے بارے میں نہیں سنا، یہ عملی طور پر بہت مشکل ہے کہ کسی تیسرے ملک سے لوگوں کو لایا جائے جنھوں نے شہریوں کو مارنے کے لیے پیسے دیے ہوں۔ کیونکہ یہاں جگہ جگہ چیک پوسٹیں تھیں۔

برطانوی افواج نے سراجیووکے اندر اور آس پاس کے علاقوں میں خدمات انجام دیں، جہاں سرب افواج تعینات تھیں اور اُنھوں نے اس وقت کچھ بھی نہیں دیکھا جس سے یہ معلوم ہو سکتا کہ ’سنائپر ٹورازم‘ ہو رہی ہے۔تاہم عالمی ذرائع ابلاغ کے پاس اس حوالے سے تاریخی شواہد تصاویر کی صورت میں موجود ہیں۔

الجزیرہ نے اپنی سٹوری میں ایک تصویر کا کیپشن یہ دیا ہے: پیر، 13 جولائی 1992 ، لوگوں کو سنائپرز کے ٹھکانے سے آگاہ کرنے کے لیے محاصرہ زدہ شہر سراجیوومیں نشانی دکھائی دے ہی ہے۔اس تصویر میں سڑک کنارے ایک بورڈ نصب ہے جس پر لکھاہے Pazi Snajper۔ یعنی خبردار،یہاں سنائپرزہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ میں ایک اورتصویر دی گئی ہے ۔ اس کا کیپشن ہے:بدھ، 9 جون، 1993 کو سراجیووکی بدنام زمانہ ‘سنائپر گلی میں سنائپر فائرہوتے ہی تین آدمی بچائو کے لیے بھاگ رہے ہیں ۔
اس تصویر میں جودیوار نظر آتی ہے اس پرچاکنگ سے کھوپڑی اورہڈیوں کی تصویربنائی گئی ہے اور ساتھ لکھاہے جہنم میں خوش آمدید(Welcome To Hell

برطانوی جریدے گارڈین میںاس حوالے سے ایک تصویر چھاپی گئی ہے اس کا کیپشن ہے:1993 میں بوسنیا کے محصور دارالحکومت سراجیوو میں سرب اسنائپر فائر کے ایک علاقے سے گزرتے ہوئے لوگ جھک کر چل رہے ہیں۔

جرمن نشریاتی ادارے کی سٹوری میں تصویر کا کیپشن ہے:18 دسمبر 1994 کو بوسنیا ہرزیگوینا کے شہر سراجیوو میں سنائپر فائر سے بھاگتے ہوئے شہری۔ یورپی باشندوں پر الزام ہے کہ وہ تفریحاًشہریوں کو مارنے کے لیے سفر کرتے تھے جسے ’’سنائپر ٹورازم‘‘ کہا جاتا ہے۔

1992 اور 1996 کے درمیان، اطالوی شہری اور دیگر جو بنیادی طور پر بندوق چلانے کے شوقین تھے، ’’شکار‘‘کے لیے ہفتے کے آخر پر جمعہ کے روز سابق یوگوسلاویہ کی سرحد پر شمال مغربی اٹلی کے علاقے ٹری ایسٹ میں جمع ہوتے ۔

42سالہ ایک بوسنیائی زیمل ہوڈزک جو 90 کی دہائی میں سراجیوو میں پلابڑھا،اس نے بتایاکہ اس وقت اختتام ہفتہ ہمیشہ خاص طورپر خطرناک ہوتے تھے،یہ باتیں گردش کرتی رہتیں کہ باہر سے لوگ ہم پر گولی چلانے کے لیے آرہے ہیں۔

ہوڈزک نے کہا کہ یہ سلسلہ چار سال تک جاری رہا۔اس نے میڈیاکو یہ بھی بتایا کہ میرے بھائی کو ایک سنائپر نے اس وقت مار دیا جب وہ گھرکے باہر کھیل رہا تھا۔ ہم کبھی نہیں جان پائیں گے کہ آیا یہ انہی لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نے ایسا کرنے کے لیے ادائیگی کی تھی۔

شرکاء کو مبینہ طور پر فضائی راستے سے سراجیووکے آس پاس کی پہاڑیوں پر لے جایا جاتا، جہاں وہ سرب ملیشیا کو ادائیگی کرتے ۔ یہ ابھی واضح نہیں کہ ان دوروں کا اہتمام کون کرتارہا البتہ قرائن سے پتاچلتاہے کہ یہ سرب فوج تھی۔

بوسنیا کے جس ملٹری انٹیلی جنس افسر کی گواہی اس مقدمے میں شامل ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اور کچھ ساتھیوں نے اٹلی کی ملٹری انٹیلی جنس کو ان اطالویوں کے بارے میں آگاہ کیا تھاجو جو 1994 کے اوائل میں سراجیوو جاتے رہے،اس کے مطابق اطالوی انٹیلی جنس سروس نے اسے بتایا کہ اس نے چند ماہ بعد ان دوروں کو روک دیا۔اطالو ی انٹیلی جینس ایجنسی ’’سیسمی‘‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نے ٹری ایسٹ میں روانگی کے مقامات کو دریافت کیا اوراس میں خلل ڈالا تھا۔

ایک اور گواہ نےتین مردوں کی تفصیلات بتائیں جن سے اب تفتیش کی جا رہی ہے، جو ٹورین، میلان اور ٹری ایسٹ سے ہیں۔

مقدمے کی استغاثہ دستاویزمیں موجود سیسمی کی رپورٹ کے مطابق میلان سے تعلق رکھنے والا ایک شخص جو 1993 میں اس کھیل کا حصہ بنتارہا وہ ایک نجی پلاسٹک سرجری کلینک کا مالک تھا۔

اٹنیلی جینس افسرسباسک کے بارے میں توقع ہے کہ وہ پراسیکیوٹر کے دفتر سے طلب کیے گئے پہلے گواہوں میں سے ایک ہوں گے۔

سباسک 1993 میں پکڑے گئے ایک سربیا ئی سے پوچھ گچھ کے بارے میں بتاتا ہے، جس نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہاں سنائپر ٹورسٹ آتے تھے۔تب وہ 20 سال کا ایک رضاکارفوجی تھا۔
سرب کنٹرول کےعلاقے میں رات کے وقت ڈرائیونگ کے دوران اس نے ایک ہی بس میں پانچ غیر ملکیوں کو دیکھا جن کے ساتھ بہت اچھا برتائو کیا جارہاتھا اور جو بہت اچھی طرح سے لیس تھے۔ان میںتین اطالوی تھے۔ باقی دو نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں سے ہیں۔

سباسک کا دعویٰ ہے کہ ان مسافروں نےشہریوں پر گولی چلانے کے لئے ادائیگی کی تھی۔

اطالوی خبر رساں ایجنسی اے این ایس اے نے رپورٹ کیا کہ سراجیوو کی سابق میئر بینجمینا کریک نے بھی ان غیر انسانی سرگرمیوں میں ملوث امیر غیر ملکیوںپر میلان پراسیکیوٹر کو ایک فائل بھیجی ہے۔

میلان میں بوسنیا کے قونصل ڈاگ ڈمروکچ نے اطالوی اخبار کو بتایا کہ ان کی حکومت اس معاملے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کر رہی ہے۔بوسنیائی سفارت کارت کے مطابق ہم اس طرح کے ظالمانہ معاملے کی حقیقت سے پردہ اٹھانے اور احتساب کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ میرے پاس کچھ معلومات ہیں جو میں تفتیش کاروں کو دے دوں گا۔

2007 میں، سابق امریکی میرین جان جارڈن نے سابق یوگوسلاویہ کے لیے قائم بین الاقوامی فوجداری ٹربیونل کے سامنے گواہی دی تھی کہ’’سیاح شوٹ‘‘ سراجیووآتے تھے۔
مدعی گاواززینی نے کہا کہ اس نے پہلی بار 1990 کی دہائی میں مبینہ سنائپر سیاحوں کے بارے میں رپورٹیں پڑھی تھیں، لیکن جب میران زوپانیک نے دستاویزی فلم بنائی تو میں نے تفتیش کا سلسلہ شروع کیا۔

’’سراجیو سفاری ‘‘ نکتہ آغاز تھا،میں نے ڈائریکٹر کے ساتھ خط کتابت شروع کی اور اپنی تفتیش کو تب تک جاری رکھا جب تک میں نے میلان کے پراسیکیوٹرز کو پیش کرنے کے لیے کافی مواد اکٹھا نہیں کرلیا۔

مذکورہ فلم میں، ایک سابق سرب فوجی نے بتایا کہ مغربی باشندوں کے گروہوں نے سراجیوو کی پہاڑیوں سے آبادی پر گولیاں برسائیں ۔ سربیا کے جنگی سابق فوجیوں نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔

سراجیوو میں تحقیق اور دستاویزی مرکز کا کہناہے کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سراجیوو میں 300 سے 350 کے درمیان ہلاکتوں کے ذمہ دار اسنائپرز تھے۔تقریباً تمام متاثرین عام شہری تھے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔