فیصلے کے یورپی و خلیجی ممالک پر بھی نمایاں اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے، فائل فوٹو
 فیصلے کے یورپی و خلیجی ممالک پر بھی نمایاں اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے، فائل فوٹو

باسمتی چاول کا ٹریڈ مارک حاصل کرنے میں بھارت ناکام

عمران خان :
عالمی مارکیٹ میں باسمتی چاولوں کے برانڈ ٹریڈ مارک پر مالکانہ حقوق کے حوالے سے قانونی جنگ میں پاکستان کو بڑی کامیابی ملی ہے۔ جبکہ بھارت کی بھاری مالیت کی لابنگ بری طرح سے ناکام ہوگئی ہے۔ نیوزی لینڈ کی عدالت نے باسمتی چاولوں کے برانڈ پر پاکستان کا حق تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ جاری کردیا۔ جس کے بعد پاکستان رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے ذرائع پر امید ہیں کہ اس فیصلے کے یورپی اور خلیجی ممالک پر بھی نمایاں اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ پاکستانی چاولوں کے تاجروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ چاولوں کی بر آمدات بڑھانے اور زر مبادلہ میں اضافے کیلئے دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔

’’امت‘‘ کو مارکیٹ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ دنوں عالمی غذائی تجارت میں پاکستان اور بھارت کے مابین جاری سخت مقابلہ ایک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے۔ جہاں پہلی بار ایک غیر ایشیائی عدالت نے نہ صرف بھارت کے یک طرفہ دعووں کو چیلنج کیا، بلکہ پاکستان کی تاریخی اور زرعی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ’’باسمتی‘‘ کے معاملے میں ایک ایسی عدالتی مثال قائم کی ہے، جس کے اثرات مستقبل کے عالمی فیصلوں تک پھیل سکتے ہیں۔ نیوزی لینڈ ہائی کورٹ کا تازہ فیصلہ محض ایک اپیل کی مستردگی نہیں، بلکہ اس عالمی تنازع کی سمت متعین کرنے کا اہم قدم ثابت ہوا ہے۔

نیوزی لینڈ کے بڑے امپورٹرز نے فیصلہ آنے کے فوراً بعد پاکستانی سپلائرز سے نئے آرڈرز کیلئے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ ایک بڑے پاکستانی برآمد کنندہ نے بتایا کہ انہیں فیصلے کے بعد صرف دو دن کے اندر نیوزی لینڈ سے نئے انکوائری آرڈرز موصول ہوئے ہیں۔ اگر حکومت نے مناسب وقت پر عالمی مارکیٹنگ شروع کی تو اگلے چھ سے بارہ ماہ میں پاکستانی باسمتی کی برا?مدات میں 12 سے 15 فیصد اضافہ ممکن ہے۔

ایسوسی ایشن کے ایک مرکزی عہدیدار کے مطابق نیوزی لینڈ کی ہائیکورٹ نے بھارتی سرکاری ادارے APEDA کی وہ اپیل مسترد کر دی، جس میں اس نے ’’باسمتی‘‘ کو صرف بھارت کی جغرافیائی ملکیت قرار دے کر اسے ایک مخصوص سرٹیفیکیشن ٹریڈ مارک کے طور پر رجسٹر کروانے کی کوشش کی تھی۔ APEDA نے 2019ء میں یہ درخواست اس مقصد سے دائر کی تھی کہ نیوزی لینڈ کی مارکیٹ میں صرف بھارتی باسمتی کی قانونی حیثیت برقرار رہے اور پاکستانی مصنوعات کو پس منظر میں دھکیل دیا جائے۔ مگر عدالت نے یہ موقف تسلیم کیا کہ نیوزی لینڈ کے صارفین باسمتی کو کسی ایک ملک یا جغرافیے کی نسبت سے نہیں بلکہ ایک خوشبودار چاول کی قسم کے طور پر پہچانتے ہیں۔ جس کی کاشت تاریخی طور پر پاکستان اور بھارت دونوں کے دریائی علاقوں میں ہوتی ہے۔

عدالت نے مزید واضح کیا کہ بھارتی درخواست کا مقصد پاکستانی برآمد کنندگان کیلئے منڈی میں غیر منصفانہ رکاوٹیں کھڑی کرنا تھا۔ اگر اسے تسلیم کیا جاتا تو پاکستانی صنعت کو سنگین نقصان پہنچتا۔ رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن اف پاکستان (REAP) کے ایک سینئر عہدیدار نے مزید بتایا کہ بھارت کئی برسوں سے مختلف عالمی فورمز اور تجارتی منڈیوں میں یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ باسمتی صرف بھارت کی ملکیت ہے۔ ان کے مطابق بھارت نے سپر مارکیٹ چینز، امپورٹرز اور خوراک کے بین الاقوامی ریگولیٹرز کو خطوط لکھ کر ایک ایسا ماحولیاتی دبائو پیدا کرنے کی کوشش کی، جس کا مقصد پاکستانی باسمتی کو محدود کرنا تھا۔ پاکستان نے اس مقدمے میں تاریخی، جینیاتی، زرعی اور تجارتی دستاویزات کا وہ ذخیرہ جمع کرایا، جس نے عدالت کیلئے فیصلہ کرنا آسان بنا دیا۔ ان میں برطانوی دور کے وہ زراعتی ریکارڈ بھی شامل تھے، جن میں پنجاب کے پاکستانی اضلاع کو باسمتی گرانگ زون کے طور پر نشان زد کیا گیا تھا۔

پاکستانی برآمد کنندگان کے باخبر ذرائع کے مطابق بھارت نے نیوزی لینڈ کو ایک ’’ٹیسٹ گرائونڈ‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اگر بھارت نیوزی لینڈ میں باسمتی کو اپنی ملکیت کے طور پر رجسٹر کرانے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ اسی فیصلے کو آسٹریلیا، کینیڈا، یورپی یونین اور خلیجی ریاستوں میں نظیر کے طور پر پیش کرتا اور پھر عالمی منڈی میں ’’سنگل نیشن سورس‘‘ کا تاثر قائم کرکے اپنی اجارہ داری مضبوط بنا لیتا۔ اس حکمت عملی کے تحت بھارتی کمپنیاں نیوزی لینڈ کی بڑی سپر مارکیٹ چینز پر دبائو ڈال رہی تھیں کہ وہ صرف بھارتی باسمتی رکھیں۔ مگر نیوزی لینڈ ہائیکورٹ کے فیصلے نے اس حکمت عملی کی بنیاد ہی ختم کر دی اور اب بھارتی کمپنیاں اس منڈی میں مستقبل کی سرٹیفیکیشن کوششیں بھی کھو چکی ہیں۔

اس کیس میں پاکستان کی قانونی ٹیم نے ایک جامع حکمت عملی اختیار کی۔ جس میں تاریخی دستاویزات کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ ان ریکارڈز نے یہ ثابت کیا کہ پاکستانی پنجاب کے اضلاع خصوصاً شیخوپورہ، قصور، نارووال، لاہور، گوجرانوالہ اور بہاولپور انیسویں صدی سے باسمتی کے اصل کا مرکز رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جینیاتی تحقیق کی رپورٹس بھی شامل کی گئیں، جنہوں نے دونوں ممالک میں اگائی جانے والی باسمتی اقسام کی مشترکہ جینیاتی بنیاد ثابت کی۔ نیوزی لینڈ کے امپورٹ ریکارڈ نے عدالت کو باور کرایا کہ پاکستانی باسمتی گزشتہ تین دہائیوں سے اس ملک کی منڈی کا حصہ رہا ہے۔ جبکہ صارفین کے ایک آزادانہ سروے نے اس تاثر کو مزید تقویت دی کہ نیوزی لینڈ کے خریدار پاکستانی باسمتی کو بہتر خوشبو اور کوالٹی کے باعث ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تمام شواہد بھارتی دلائل پر حاوی ہو گئے اور عدالت نے صاف لفظوں میں بھارتی اپیل کو ’’غیر موثر اور غیر جامع‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔

آر ای اے پی کے مطابق مطابق پاکستان پہلی بار اس تنازعے میں دفاعی پوزیشن سے نکل کر مضبوط اور موثر موقف کے ساتھ عالمی فورمز میں داخل ہو رہا ہے۔ آسٹریلیا میں زیر سماعت مقدمہ اب اس فیصلے کے بعد مزید مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہوگا۔ اسی طرح یورپی یونین کہ جہاں کی عدالتیں اکثر دیگر ممالک کے فیصلوں کو نظیر کے طور پر دیکھتی ہیں۔ جبکہ خلیجی ریاستوں کی مارکیٹوں میں جہاں بھارتی کمپنیاں اشتہارات اور مارکیٹنگ کے ذریعے پاکستانی باسمتی کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتی رہی ہیں، وہاں بھی اس عدالتی فیصلے کے بعد پاکستانی برآمد کنندگان کے حق میں اعتماد بڑھے گا۔

ذرائع کے مطابق نیوزی لینڈ ہائی کورٹ کا فیصلہ صرف قانونی جیت نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کیلئے سفارتی، تجارتی اور اقتصادی اعتماد کی بحالی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایک غیر ایشیائی عدالت نے تحریری فیصلے میں تسلیم کیا کہ باسمتی چاول کی کاشت اور اس کی تاریخی وراثت پاکستان اور بھارت دونوں کی مشترکہ ملکیت ہے۔ برآمدی حلقوں کے مطابق یہ فیصلہ عالمی منڈی میں پاکستان کیلئے نئی ساکھ کی شروعات ہے اور مستقبل میں آسٹریلیا، یورپی یونین اور دیگر حساس تجارتی محاذوں پر پاکستان زیادہ مضبوط دلائل کے ساتھ اپنے حق کے لیے کھڑا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔