صنفی تشدد

خواتین کے خلاف آن لائن ہراسانی اور ڈیجیٹل تشدد پھیلنے کی رفتار خطرناک

اقوام متحدہ نے کہاہے کہ موثر قوانین و احتساب کی کمی اور مصنوعی ذہانت سےڈیجیٹل صنفی تشدد خطرناک رفتار سے پھیل رہا ہے۔

 

یواین ویمن کی 16 روزہ مہم کے حوالے سے ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث کا کہنا ہے کہ جو کچھ آن لائن شروع ہوتا ہے وہ محدود نہیں رہتا بلکہ ڈیجیٹل بدسلوکی حقیقی زندگی تک پھیل جاتی ہے، خوف پیدا کرتی ہے، اور جسمانی تشدد تک جا پہنچتی ہے۔

 

آن لائن ہراسانی اور تعاقب سے لے کر بدنامی، رضامندی کے بغیر تصاویر اور ویڈیو شیئر کرنے، ڈیپ فیک اور غلط معلومات کے پھیلاؤ تک کئی طرح کا یہ تشدد اب انٹرنیٹ کے ہر گوشے میں سرایت کر چکا ہے اور اس کے ذریعے خواتین اور لڑکیوں کو خاموش کرنے، بدنام کرنے اور ڈرانے کا کام لیا جا رہا ہے۔

 

عالمی بینک کے مطابق، 40 فیصد سے بھی کم ممالک میں خواتین کو آن لائن ہراسانی یا تعاقب سے تحفظ دینے کے لیے قوانین موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی 44 فیصد خواتین اور لڑکیاں یعنی2 ارب افراد قانونی تحفظ تک رسائی سے محروم ہیں۔

 

کاروبار یا سیاست میں قیادت کے عہدوں پر فائز خواتین تواتر سے ڈیپ فیک، منظم ہراسانی اور صنفی بنیاد پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات کا نشانہ بنتی ہیں۔

 

آن لائن بدسلوکی اور تشدد کے بہت کم واقعات کی اطلاعات سامنے آتی ہیں۔ عدالتی نظام اس حوالے سے تیار نہیں اور ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز پر احتساب نہ ہونے کے برابر ہے۔

 

مصنوعی ذہانت پر مبنی بدسلوکی کے بڑھتے رجحان نے مجرموں کی بے خوفی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔تاہم اس تمام صورتحال کے باوجود بہتری کی جانب پیش رفت بھی جاری ہے۔

 

قوانین کو ٹیکنالوجی میں تیز رفتار تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جا رہا ہے۔

 

برطانیہ اور آسٹریلیا کے ‘آن لائن سیفٹی ایکٹ سے لے کر میکسیکو کے ‘اولمپیا ایکٹ ور یورپی یونین کے ‘ڈیجیٹل سیفٹی ایکٹ تک بہت سے نئے اصلاحاتی اقدامات سامنے آ رہے ہیں۔

یواین ویمن کے مطابق رواں سال تک 117 ممالک نے آن لائن تشدد سے نمٹنے کی کوششوں کے بارے میں بتایاہے۔

 

خواتین کے خلاف صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کی مہم عالمی سطح پر ہنگامی اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔یہ مہم 25 نومبر سے شروع ہوگی۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔