غزہ۔فائل فوٹو

غزہ کے لیے استحکام فورس میں پاکستان شامل ہوگا؟

سلامتی کونسل میں غزہ امن منصوبے کی توثیق سے جنگ بندی دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔اب غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی ہوگی جس کے لیے مسلمان ملکوں کوترجیح دی جائے گی۔

عالمی میڈیاکے مطابق حالیہ ہفتوں میں، پاکستان، جوہری طاقت کا حامل واحد مسلم ملک ہونے کے ناتے بھی،مشرق وسطیٰ میں قیام امن سلامتی کے حوالے سے ایک کلیدی ریاست کے طور پر ابھرا ہے، جس کا تعاون حاصل کرنے کے امریکہ اور اہم عرب اتحادی خواہاں ہیں۔

 

امریکی میڈیا پولیٹیکو نے گزشتہ ماہ رپورٹ کیا تھا کہ پاکستان، آذربائیجان اور انڈونیشیا،آئی ایس ایف کے لیے فوجیوں کی فراہمی کے لیے سرفہرست ملکوںمیں شامل ہیں۔

 

بہت سے قریبی اتحادی غزہ میں پاکستانی موجودگی چاہتے ہیں اور اسلام آباد کی شرکت کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

 

تجزیہ کار اقوام متحدہ کے امن مشنز میں پاکستان کے طویل تجربے کاحوالہ دیتے ہیں۔

 

ستمبر 2025 تک، اقوام متحدہ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے مشنوں میں2600 سے زیادہ اہلکاروں کا تعاون کیا ہے، جو انڈونیشیا کے2700 سے کچھ کم ہے پاکستان مجموعی طور پر چھٹے نمبر پر ہے۔

 

بین الاقوامی تعلقات کے ماہر قمر چیمہ نے کہا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ کے لیے سیکیورٹی اسٹیبلائزر کے طور پر ابھرا ہے اور ماضی میں تنازعات والے علاقوں میں مدد فراہم کرنے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔

 

عسکری ذرائع کا کہناہے کہ قیام امن کا تجربہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی فوج غزہ استحکام فورس میں شمولیت کے لیے اچھی طر ح تیارہے۔

 

پاکستان کی حکومت آئی ایس ایف میں اپنی شمولیت پر غور کر رہی ہے۔ اگرچہ حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اگر پاکستان اس میں شرکت کرتا ہے تو میرے خیال میں یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہوگی۔

 

واشنگٹن ڈی سی میں نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجی اینڈ پالیسی کے سینئر ڈائریکٹر کامران بخاری کاکہناہے کہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ غزہ میں پاکستانی فوجی ممکنہ طور پر دونوں ممالک کی نمائندگی کریں گے۔

 

کچھ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ یہ کام بظاہرآسان لیکن عملاً پیچیدہ ہے۔

 

ایک سابق جنرل کی رائے میں یہ صرف ایک اخلاقی مخمصہ نہیں بلکہ تزویراتی تضاد بھی ہےاور اس میںسفارتی چیلنج بھی ہے۔

 

فلسطین پاکستان کے لیے ایک جذباتی موضوع ہے ۔ریاستی پالیسی کے تحت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔ قومی پاسپورٹ واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ اسے اسرائیل کے سفر کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، اور اسرائیلی افواج کے ساتھ تعاون کی کوئی تجویز سیاسی طور پر ناقابل عمل ہے۔

 

کچھ ذرائع کا کہناہے کہ آئی ایس ایف ممکنہ طور پر ایک ایسا اتحاد ہو گا جس میں کوئی ایک پارٹنر اسرائیلی افواج کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاملات کو مربوط کرے گا، یعنی پاکستانی فوجیوں کا اسرائیل سے براہ راست رابطہ ضروری نہیں ہوگا۔

 

ایسے ممالک بھی اس کا حصہ ہیں جن کے اسرائیل سے تعلقات ہیں۔ امکان ہے کہ وہ آئی ایس ایف میں کمانڈنگ کردار ادا کریں گے، اور اس طرح وہ ان کے ساتھ مشغول ہوں گے، نہ کہ پاکستان۔

 

پاکستان کی شمولیت صرف جنگ بندی کو برقرار رکھنے اور فلسطینیوں کی جانوں کے تحفظ پر مرکوز ہو گی۔

 

غزہ میں فوجیوں کی تعیناتی کا امکان سیاستدانوں اور فوج کے لیے ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔سرکاری طور پر، حکومت استحکام فورس میں شمولیت کے بارے میں گومگو کاشکارہے۔

 

فورس میں کسی بھی شرکت کو فخر کا باعث قرار دیتے ہوئے، وزیر دفاع آصف نے کہا کہ حکومت کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے پارلیمنٹ اور دیگر اداروں سے مشورہ کرے گی۔انہوں نے کہاکہ حکومت عمل سے گزرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرے گی۔

 

اس ماہ کے شروع میں ہفتہ وار پریس بریفنگ میں، وزارت خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی نے کہا تھاکہ پاکستان کے تعاون کے سوال کا فیصلہ اعلیٰ سطح پر مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔

فیصلہ مناسب وقت پر لیا جائے گا،جب ضرورت ہو گی۔

 

بین الاقوامی میڈیانے اس حوالے سے کابینہ کے اہم ارکان اور فوجی ترجمان سے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

 

سفارتی ذرائع کے مطابق حماس کوغیر مسلح کر نے کا معاملہ بھی آئی ایس ایف کوایک مشکل مشن بناتاہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔