سولرپینلز

ایک دہائی کے اندر پاکستان’چھتوں پرنصب سولر پینلزکاحب‘ کیسے بنا؟

چند سال پہلے تک،شمسی توانائی پاکستان کے نیشنل الیکٹرک گرڈ سےنہ ہونے کے برابر منسلک تھی لیکن 2026 تک اس پر 20 فی صد بجلی سولرہوگی۔

سرکاری طورپربتایاگیاہے کہ آئندہ سال پہلی بار پاکستان میں چھتوں پر نصب سولر پینلز سے شمسی توانائی کی پیداوار کچھ بڑے صنعتی علاقوں میں دن کے وقت قومی گرڈ پر طلب سے تجاوز کر جائے گی۔اس ’منفی طلب‘ کا امکان لاہور میں ہے، جہاں شمسی توانائی کا استعمال سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد فیصل آباد اور سیالکوٹ ہیں، جہاں صنعتی علاقے شمسی توانائی اپنانے میں نمایاں ہیں۔

پاکستان میں شمسی توانائی کے استعمال نے ایسا انقلاب برپاکیا کہ عمارتوں کی چھتیں سولرپینلزسے بھرگئیں۔حالاں کہ توانائی کے ذریعے کی منتقلی ایک پیچیدہ عمل تصورکیا جاتاہے جس میں سیاسی ،انتظامی ،تیکنیکی اور دیگر عوامل ،طویل منصوبہ بندی ، بین الاقوامی فنڈزاور صنعتی پالیسی کی ضرورت پڑتی ہے لیکن پاکستان میں ریاستی قیادت کے بجائے مارکیٹ کی سطح پر یہ سولر ہب وجود میں آیا۔

ایک دہائی کے اندر ،طلب ورسد کا ایک طوفان اٹھاجس نے شمسی توانائی کو غلبہ دے دیا۔خاص طورپر، گذشتہ تین سال کے دوران بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ،جو 155 فی صدتک ہوا،صارفین کو گرڈ سے دورکردیا۔رہائشی، تجارتی اور صنعتی تینوں بڑے شعبے شدید متاثرہوئے ۔ معاشی بحران، ایندھن کی بڑھتی قیمتوں اوربجلی کی لازمی مقررہ لاگت نے اخراجات میںاضافہ ناقابل برداشت سطح پر پہنچادیا۔
یہ طلب کا پہلوہے۔

چینی مینوفیکچرنگ کی وسیع گنجائش سے عالمی سطح پر سولر پینل کی قیمتوں میں تقریباً 50 فیصد کمی واقع ہوئی، پاکستان نے سولر فوٹووولٹک (PV) درآمدات کو 2025 کے وسط تک ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ کردیا۔
یہ رسد کا طوفان تھا۔

ان عوامل نے مل کر مالی طور پر چھت کے شمسی نظام کو قوت خرید،قابل برداشت اور پرکشش بنا دیا۔

اس شمسی انقلاب کی ابتدا رہائشی سیکٹرسے ہوئی۔ اس نے سستی بجلی حاصل کرنے کی طرف سب سے پہلے بڑے پیمانے پر شروعات کیں۔جیسے جیسے ٹیرف میں تیزی سے اضافہ ہوا، بڑی مقدارمیں توانائی استعمال کرنے والے گھرانے گرڈ کوچھوڑکر چھتوں کے نظام پرمنتقل ہونے لگے۔کیوں کہ انہیں حجم کی بنیاد پر قیمتوں کا سامنا کرنا پڑا جہاں استعمال شدہ بجلی کے آخری یونٹ کی قیمت پہلے یونٹ سے کہیں زیادہ ہے۔

2020 میں، 10 فی صد صارفین مہنگا ٹیرف ادا کر رہے تھے،۔ 2024 تک، یہ تعداد کم ہو کر 1فی صدرہ گئی،دوسری طرف نیٹ میٹرنگ کی پالیسیوں سے مستفید ہونے والوں کی تعداد 57 فی صد سے بڑھ کر 89 فی صدپرپہنچ گئی۔
بلوچستان اور سندھ جیسے دور دراز صوبوں میں، جہاں صارفین کی گرڈ تک رسائی 70 فیصد سے کم ہے، آف گرڈ گھرانےتیزی سے پی وی سسٹمز پر انحصار کرنے لگے۔

ایک گیگاواٹ اور1 اعشاریہ 7 گیگاواٹ کے درمیان صلاحیت کے ساتھ، اکیلے سولر ہوم سسٹمز اب سب سے عام آف گرڈ بجلی کا ذریعہ ہیں، جو غریب اور دور دراز علاقوں میں گھرانوں کو دن کے وقت بجلی فراہم کرتے ہیں۔

کسان بھی، زرعی شعبے میں زیراستعمال ڈیزل جنریٹرز اور،یا ناقابل بھروسہ پاور گرڈ سے دور ہوئے۔زرعی شعبے کی شمسی توانائی پر منتقلی کی رفتار کم زیربحث آئی لیکن یہ سب سے زیادہ تبدیلی لانے والاشعبہ ہے۔

ملک بھر میں15 سے20 لاکھ ٹیوب ویلوں میں سے 80 فیصد درآمد شدہ ڈیزل یونٹس پر انحصار کرتے ہیں جو گرڈ سے منسلک نہیں۔ ڈیزل مہنگا ہونے سے سولر پمپ زیادہ موثر ہو گئے۔ساتھ ہی گرڈ بجلی کی بلاتعطل فراہمی میں بھی زیادہ ناقابل اعتبار ہوتا گیا جس نےزرعی شعبے کو شمسی توانائی کی طرف منتقلی کاراستہ دکھایا۔ اس کے نتیجے میں، 2024 میں زرعی بجلی کی طلب34 اعشاریہ 3فیصد کم ہوگئی۔

ماہرین کے تخمینے بتاتے ہیں کہ نصف ٹیوب ویل شمسی توانائی پر جائیں گے، جس سے پی وی صلاحیت میں5 اعشاریہ 6 گیگاواٹ سے7 اعشاریہ 5 گیگا واٹ کا اضافہ ہو جائے گا جو10 لاکھ امریکی رہائشی چھتوں کے شمسی نظام کے برابر ہے۔

صنعتی شعبے نے بھی قابل تجدید نظام کو اپنایا تاکہ مہنگی اور باربار منقطع ہونے والی بجلی سے جان چھڑائی جائے۔ صنعت پہلے ہی مہنگے بیک اپ ڈیزل اور گیس جنریٹرز پر چل رہی تھی، بجلی کے نرخوں میں بلنداضافے سے یہاں بھی شمسی توانائی بہترین حل نظر آئی۔

برآمدی صنعتوں، خاص طور پر ٹیکسٹائل، نے – عالمی مسابقت کے لیے سستی اور صاف ستھری شمسی توانائی کو دگنا فائدہ مند پایا۔اس نے گرڈ پر انحصار کو نمایاں طور پر کم کر دیا ، صنعتی طلب مالی سال 2023 میں31 ہزار (GWh) تھی، مالی سال 2024 میں27 ہزار 800رہ گئی ۔

2024 میں، عالمی سطح پر کل قابل تجدید صلاحیت کے 700 گیگاواٹ میں سے 80 فی صد سولر فوٹو وولٹک (PV) تھی۔ پاکستان میں 2025 کی پہلی ششماہی میں شمسی توانائی سےبجلی کی پیداوار عالمی اوسط کے تین گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا۔تازہ ترین اعداد و شمار (اگست 2025) کے مطابق، پاکستان نے تقریباً 50 گیگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کیے، جو اسے چینی سولر پینلز کے لیے تیسری سب سے بڑی مارکیٹ میں تبدیل کر چکے ہیں۔
2019 اور 2025 کے درمیان، سولر پینل کی مجموعی درآمدات نے پاکستان کے نصب شدہ پاور پلانٹ کی مجموعی صلاحیت کو 2 گیگا واٹ (GW) سے زیادہ کر دیا۔

سولر پی وی سسٹم پاکستان کے جن سیکٹرزمیں رائج ہوئے ہیں،ان میں پہلا رہائشی شعبہ ہے، جہاں نیٹ میٹرڈ سسٹمز (جو اضافی بجلی واپس گرڈ میں فیڈ کرنے کی سہولت دیتے ہیں) اور نان نیٹ میٹرڈ سسٹم ( گرڈ فیڈ ان کے بغیر استعمال) دونوں استعمال ہورہے ہیں اور آف گرڈ سسٹم بھی عام ہیں۔

اس میں صنعتی شعبہ بھی شامل ہے، جو شمسی توانائی کارخانوں اور بڑے آپریشنز کے ساتھ ساتھ یوٹیلیٹی اسکیل سسٹمز میں استعمال کرتا ہےیہ بڑے پیمانے پر سولر فارمز ہیں جو قومی گرڈ کو بجلی فراہم کرتے ہیں۔ تجارتی شعبے، جیسے کاروبار اور دفاتر، سرکاری عمارتوں اور ہسپتالوں جیسے عوامی انفراسٹرکچر نے بھی سولر پی وی کو اپنایا ہے۔

پاکستان میں سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی 2015 میں نافذ کی گئی تھی۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت شمسی توانائی کی پالیسی لائی ۔ گھروں میں سولر پینل لگانے کے لیے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی گئی تاکہ وہ نہ صرف بجلی کی پیداوار میں خود کفیل ہوں بلکہ اضافی بجلی نیشنل گرڈ کو بھی بیچیں۔اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے پنجاب کے ضلع بہاولپور میں قائداعظم سولر پارک یونٹ1 کا افتتاح کر کیا تھا۔اس منصوبے کو نہ صرف پاکستان میں شمسی توانائی کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیا گیا۔اس موقع پر بتایاگیاکہ یہا ں سے ابتدائی طور پر 100 میگا واٹ ، آئندہ دو سال کی مدت میں 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2024ءتک ملک میں سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 83 ہزارہو چکی تھی۔ 2021ءمیں نیٹ میٹرنگ صارفین 321 میگا و ا ٹ بجلی پیدا کررہے تھے جو اکتوبر 2024 ءمیں بڑھ کر 3300میگاواٹ اور دسمبر 2024ءمیں 4124میگاواٹ تک جاپہنچی۔مستقبل میں 12ہزارمیگاواٹ تک پہنچ سکتی ہے۔
جولائی 2025 میں جرمن نشریاتی ادارے نے ایک رپورٹ میں بتایاکہ پاکستان میں شمسی توانائی کا خاموش انقلاب متمول آبادیوں سے لے کر متوسط اور کم آمدنی والے گھرانوں تک پھیل چکا ہے، کیونکہ صارفین بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں اور ترسیل میں طویل رکاوٹوں سے پریشان ہیں۔

توانائی کے ایک تھنک ٹینک ’’ ایمبر‘‘کے مطابق، 2020 میں توانائی کے مجموعی ذرائع میں دو فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود، 2024 میں شمسی توانائی 10.3 فیصد تک پہنچ گئی۔تاہم، 2025 کے پہلے پانچ مہینوں میں یہ غیر معمولی تیزی کے ساتھ دوگنا ہو کر 24 فیصد ہو ئی اور پہلی بار توانائی کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئی۔ پاکستان میں شمسی توانائی نے گیس، کوئلے اور جوہری بجلی کے ذرائع کے ساتھ ساتھ ہائیڈرو پاور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، جس پر گزشتہ کئی دہائیوں میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ۔نتیجے کے طور پر، پاکستان غیر متوقع طور پر اپنے قابل تجدید توانائی کے ہدف کی طرف تیزی سے بڑھا ہے، جس کا مقصد 2030 تک اسے اپنی توانائی کا 60 فیصد بنانا ہے۔

ایمبر کے چیف تجزیہ کار ڈیو جونز کے مطابق پاکستان ’’چھت پر نصب سولر پینلز سے شمسی توانائی کے حصول میں ایک رہنما‘‘ بن چکا ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔