مقبوضہ کشمیر ۔فائل فوٹو

مقبوضہ کشمیر میں مسلم طلباکی قابلیت نے دھاک بٹھادی۔ ہندوتواعناصر خائف

مقبوضہ کشمیر میں مسلم طلبا کی قابلیت نے دھاک بٹھادی ہے، خائف ہوکرہندوتوا عناصر تلملااٹھے۔

بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی)نے ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔حال ہی میں یونیورسٹی میں 50 نشستوں کے لیے داخلہ امتحانات میں 42 مسلمان امیدوار کامیاب ہوئے ۔ بی جے پی نے کامیاب امیدواروں کی فہرست کو مسترد کر دیا ہے اور اِس کے خلاف ایک میمورنڈم (یادداشت) ریاستی گورنر منوج سنہا کو دی ہے۔ گورنر آفس نے اس یادداشت کو باقاعدہ طور پر وصول بھی کیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی ہنما سُنیل شرما کے زیرقیادت پانچ رکنی وفد نے جموں میں لیفٹینٹ گورنر منوج سنہا کو یہ میمورنڈم پیش کیا۔ اس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی میں تمام داخلوں کو ہندوؤں کے لیے مخصوص کیا جائے۔

لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا ماتا ویشنو دیوی کے چانسلر بھی ہیں۔ انھوں نے ابھی تک یونیورسٹی حکام کو اس ضمن میں کوئی بھی ہدایت جاری نہیں کی ۔

میمورنڈم کے مطابق میڈیکل کی داخلہ فہرست میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔یہ یونیورسٹی ایک مذہبی ادارہ ہےاور لوگوں کو اس ادارے سے عقیدت ہے۔ یونیورسٹی عقیدت مندوں کے چندے سے چلتی ہے، وہ اس لیے چندہ دیتے ہیں تاکہ اُن کے عقیدے کو فروغ ملے۔ لیکن یونیورسٹی کے بورڈ نے اس بات کو نظرانداز کیا۔

سنیل شرما نےمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میمونڈم میں درج تفصیلات کی تصدیق بھی کی اور مزید کہا کہ ہمیں یہ فہرست منظور نہیں۔ ہم نے گورنر سے کہا کہ سلیکشن ضابطوں میں ترمیم کی جائے اور اس یونیورسٹی میں صرف اُن کو داخلہ ملے جو ماتا سے عقیدت رکھتے ہوں۔

چند روز قبل نئی دہلی میں لال قلعہ دھماکے میں ملوث مبینہ خودکش حملہ آور کی شناخت ظاہر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ وہ ایک کشمیری ڈاکٹر تھے۔10 نومبر کو نئی دہلی میں خودکش کار بم دھماکے کی تحقیقات میں کئی کشمیری ڈاکٹروں کے نام سامنے آئے تھے۔بھارتی وفاقی ایجنسی این آئی اے نے اسے ‘وائٹ کالر ٹیرر ماڈیو ل قرار دیا ۔اس کے بعد سوشل میڈیا پر بعض بی جے پی کے حامی حلقوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ انڈین اداروں میں کشمیری اور انڈین مسلم طلبا کے داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔

نیشنل کانفرنس کے رکن اسمبلی تنویر صادق نے اس مطالبے کو مذہبی منافرت پھیلانے کا حربہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں مختلف مذاہب متعدد تعلیمی ادارے چلاتے ہیں، جہاں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے طلبا پڑھتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں صرف مسلمان نہیں جاتے، وہاں اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر بلالحاظ مذہب لوگوں کا انتخاب ہوتا ہے، آج تک اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ان کا کہناتھاکہ کل کو مذہبی اداروں کی فنڈنگ سے چلنے والے ہسپتال میں کیا علاج صرف ایک ہی مذہب کے لوگوں کا ہو گا؟ کیا صلاحیت کو نظرانداز کر کے اکثریتی بالادستی کو تسلیم کیا جائے گا؟

اپوزیشن رہنما اور رُکن اسمبلی سجاد غنی لون نے ردعمل میں کہا کہ میڈیکل سائنس کو مذہبی رنگ دینا ایک خطرناک رجحان ہے۔’اپنی پارٹی‘ کے سربراہ الطاف بخاری نے ایک بیان میں بی جے پی کے اس مطالبے کو غیرفطری قرار دیا ہے۔ہمارے یہاں مسلمانوں کے ادارے بھی ہیں، اسی منطق کا اطلاق اگر کل کو اسلامی یونیورسٹی اور بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے داخلوں پر کیا جائے تو پھر کیا ہو گا۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔