میگزین رپورٹ :
بارہ ہزار سال کی خاموشی کے بعد بالآخر ایتھوپیا کا ہیلی گبی آتش فشاں پھٹ گیا۔ دھماکے کی گونج اتنی خوفناک اور ہولناک تھی کہ قریبی دیہات کے سینکڑوں افراد کے کانوں کے پردے تک پھٹ گئے۔ رپورٹس کے مطابق اس سے قبل یہ آتش فشاں ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے تحت تقریباً 10 ہزار برس قبل مسیح میں ہولوسین کے قدیم دورمیں پھٹا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بارہ ہزار سال کی طویل خاموشی کے بعد ایتھوپیا میں آتش فشاں کا پھٹنا خطے کیلئے ایک اہم جغرافیائی انتباہ ہے۔ یہ آتش فشاں افار ٹرائی جنکشن میں واقع ہے۔ جہاں تین ٹیکٹونک پلیٹیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں اور اتنے طویل وقفے کے بعد اس کا زوردار دھماکے سے پھٹنا ظاہر کرتا ہے کہ زیر زمین پلیٹوں کی حرکت میں غیر معمولی دباؤ اور شدت پیدا ہوئی ہے۔ جس سے مستقبل میں اس علاقے کے دیگر طویل عرصے سے خاموش آتش فشانوں کے فعال ہونے کا بھی خطرہ بڑھ گیا ہے۔
سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ راکھ کے بادل پچاس ہزار فٹ کی غیر معمولی بلندی تک پہنچے، جو ماحولیاتی عدم توازن کی علامت ہے۔ اس سے خطے کے کئی بڑے علاقے کئی ہفتوں تک سورج کی روشنی سے بھی محروم ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب بتایا جارہا ہے کہ افار علاقے میں موجود قبائلیوں کے انخلا کیلئے ہنگامی اقدامات کیے جارہے ہیں کہ آتش فشاں کے پھٹنے کے بعد یہ علاقہ زہریلی گیسز کی زد میں آگیا ہے۔ ایتھوپیا کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی نے فوری طور پر ریڈ الرٹ جاری کرتے ہوئے آتش فشاں کے قریب واقع تمام دیہاتوں سے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ جس میں انہیں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔فضا میں راکھ کے گھنے بادل بھی انخلا کے آپریشنز کی رفتار کو سست کر رہے ہیں۔
ابتدائی سائنسی تخمینوں کے مطابق اس دھماکے سے خارج ہونے والے راکھ کے بادل غیر معمولی طور پر پچاس ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچ گئے ہیں، جو جیٹ سٹریمز کی سمت کے باعث افریقی قرن سے مشرق کی طرف بڑھتے ہوئے یمن، عمان، سعودی عرب اور یہاں تک کہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی تک جزوی طور پر پہنچنے کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔ اس وسیع پھیلاؤ کے نتیجے میں کئی ایئر لائنز نے خلیجی ممالک اور افریقہ کیلئے اپنی پروازوں کے راستے بدل دیئے ہیں یا پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔ جبکہ یمن میں فضائی ٹریفک کو روک دیا گیا ہے۔
صحت عامہ کے حوالے سے راکھ کے باریک ذرات اور سلفر ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج افار کے رہائشیوں میں سانس کی شدید بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ اس کے علاوہ راکھ کی موٹی تہہ نے زرعی نقصان پہنچایا ہے۔ ماہرین ماحولیات کو خدشہ ہے کہ اتنی اونچائی پر راکھ کے ذرات پھیلنے سے عالمی سطح پر اگلے چند ماہ یا ایک سال کیلئے عارضی ٹھنڈک (Winter Volcanic) کا اثر دیکھنے میں آسکتا ہے۔ واضح رہے کہ سب سے زیادہ فعال آتش فشاں 10 ممالک میں موجود ہیں۔
گلوبل وولکینزم پروگرام کے تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق دنیا کے سب سے زیادہ فعال آتش فشاں والے ممالک کی فہرست میں انڈونیشیا تاریخی طور پر سب سے آگے ہے۔ اس کے بعد جاپان، امریکہ، روس اور چلی شامل ہیں۔ یہ ممالک بحر الکاہل کے رِنگ آف فائر کے فعال زون کی عکاسی کرتے ہیں۔ تاہم ہولوسین آتش فشاں کی سب سے زیادہ تعداد امریکہ میں ہے۔ اس کے بعد جاپان اور انڈونیشیا کا نمبر آتا ہے۔ فہرست میں قابل ذکر دیگر ممالک میں ایتھوپیا شامل ہے۔ جو مشرقی افریقی رفٹ میں افریقہ کا سب سے بڑا مجموعہ رکھتا ہے۔ جبکہ آئس لینڈ، پاپوا نیو گنی اور فلپائن بھی آتش فشاں کی کثرت کی وجہ سے نمایاں ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos